۲۲ آذر ۱۴۰۳ |۱۰ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 12, 2024
علامہ سید جواد نقوی

حوزہ/ علامہ سید جواد نقوی نے اپنے خطاب میں کہا: قرآن مجید اپنی پیش کردہ الٰہی آئیڈیالوجی، مکتب اور نظام حیات کو کلمہ طیبہ کے مصادیق کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس کی مثال شجرہ طیبہ سے دیتا ہے، جس کی جڑیں راسخ ہیں، شاخیں آسمان میں بلند ہیں اور وہ ہر آن اپنا پھل دے رہا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ جامعہ عروة الوثقیٰ لاہور اور تحریک بیدارئ امت مصطفی کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے اپنے خطاب میں کہا: قرآن مجید اپنی پیش کردہ الٰہی آئیڈیالوجی، مکتب اور نظام حیات کو کلمہ طیبہ کے مصادیق کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس کی مثال شجرہ طیبہ سے دیتا ہے، جس کی جڑیں راسخ ہیں، شاخیں آسمان میں بلند ہیں اور وہ ہر آن اپنا پھل دے رہا ہے۔ قرآن مجید محکم دلائل اور عملی زندگی کے ساتھ مطابقت رکھنے والے اس نظریے کو "قول ثابت" قرار دیتا ہے اور اس سے جڑے رہنے کو مومنین کی پائیداری اور دوام کا سبب قرار دیتا ہے۔

انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کے سامنے اسی قول ثابت، یعنی الٰہی آئیڈیالوجی اور توحید پر مبنی نظام پیش کیا، اور جب مومنین نے اسے اختیار کیا تو اللہ نے انہیں استحکام اور ثبات قدم عطا کیا۔

انہوں نے مزید کہا: آج کے دور میں نسلِ حاضر کے لیے قرآن کے ضابطوں اور معیاروں کے مطابق انقلاب اسلامی قول ثابت اور شجرہ طیبہ ہے جس کو ختم کرنے کے لیے پوری دنیا اپنی تمام تر طاقت صرف کر چکی ہے۔

انہوں نے حزب اللہ کو اس شجرہ طیبہ کی شاخ طوبیٰ قرار دیتے ہوئے کہا: اس کے ثمرات کو ختم کرنے کی کوششوں اور رہبران کی شہادتوں سے مزاحمت میں کوئی دراڑ نہیں آئے گی، جیسا کہ مغربی میڈیا یہ خناسیت پھیلا رہا ہے ،چونکہ مومنین جب تک قول ثابت سے جڑے رہیں گے، خدا کے قانون کے مطابق انہیں دوام اور استحکام حاصل رہے گا، شہادتیں اس راہ کا حصہ اور لازمہ ہیں جو اس راہ کو مزید روشن کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا: آج مسلمان کی بڑی تعداد دولت و ثروت کے باوجود بے ثباتی، زوال، اور ذلت کا شکار ہے، قرآن کی رو سے، یہ زندگی کلمہ خبیثہ کی مانند ہے، اور کلمہ خبیثہ شجرہ خبیثہ کی مانند ہے، جس کی بنیاد مستحکم نہیں، اس کی جڑیں کمزور ہیں، اور اوپر سے بھی کاٹ دیا گیا ہے۔ ایسا درخت کو قرار نہیں ہے، جس پر کوئی شاخ نہیں نکلے گی اور نہ ہی کوئی پھل آ سکتا ہے۔ یہی مثال حیات خبیثہ کی ہے، کہ جس کا ہدایت کے نظام سے تعلق ٹوٹ چکا ہو، وہ ایک خشک لکڑی کی مانند ہے، جو محض ایندھن کے کام آتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا: غزہ کے معرکے سے طیب اور خبیث طبقات کے درمیان فرق واضح ہو گیا، علیحدگی کا یہ عمل خدا کا ایک جاری قانون ہے جس کے لئے ابتلاء اور آزمائش کا نظام مقرر ہے اور یہ آزمائش آج غزہ کے ذریعے ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا: اب ہمیں طیبین اور خبیثین کو دوبارہ مخلوط نہیں ہونے دینا چاہیے، آج جو لوگ خاموش ہیں، وہ خباثت کے زمرے میں آتے ہیں، اور طیب اور خبیث کا مخلوط معاشرہ دراصل خبیث معاشرہ ہی کہلاتا ہے، لہذا، جب اللہ نے آپ کو طیبین میں شامل کیا ہے، تو اس شرف کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .