اتوار 22 دسمبر 2024 - 06:00
آیت‌ اللہ سید محمد علی شیرازی کی رحلت اور انکی شخصیت کے بعض پہلوؤں پر ایک نظر / شیعیانِ مظلوم کے دفاع کے لیے ان کا جذبہ مثالی اور قابلِ دید ہوتا تھا

حوزہ/ آیت‌ اللہ سید محمد علی شیرازی کی شخصیت میں سیاسی بصیرت اور ہوشمندی نمایاں صفات میں شامل تھیں۔ وہ اسلامی دنیا کے بیشتر واقعات پر بے طرفی کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے بلکہ ان پر اپنا ایک واضح مؤقف اپناتے تھے۔ شاید ہی کوئی ان کے برابر ان مسائل پر بیانات جاری کرنے والا ہو اور ان کے بیانات میں خاص بصیرت اور دوراندیشی نمایاں ہوتی تھی۔

حوزہ نیوز ایجنسی | آیت‌ اللہ سید محمد علی شیرازی، جو عظیم مرجع اور مجاہد عالم دین آیت‌الله العظمی سید عبداللہ شیرازی کے فرزند تھے، کی وفات 1۹ دسمبر 2024ء کو مشہد میں ہوئی۔ ان کا انتقال روحانیت، علمی حلقوں، دینی و مذہبی معاشرے اور مشہد و خراسان کے متدین عوام کے لیے ایک بڑا نقصان سمجھا جاتا ہے۔

انہوں نے مشہد اور نجف اشرف میں کئی ایک دینی مدارس قائم کیے، اسی طرح ان کی سماجی خدمات جیسے کلینک، اسکول، اسپتال اور فلاحی مراکز کے قیام میں حصہ بھی نمایاں ہیں۔ تاہم ان کی سیاسی ہوشمندی اور بصیرت کو کم ہی زیر بحث لایا گیا جو کہ ان کی شخصیت کا ایک منفرد پہلو تھا۔

ان کے والد مرحوم آیت‌ اللہ العظمی سید عبداللہ شیرازی کو شیعیانِ عالم ایک عظیم مرجع اور مجاہد کے طور پر یاد کرتے ہیں، جو ایرانی شاہی ظلم و ستم اور بعث پارٹی کے خلاف جدوجہد میں پیش پیش رہے۔ انقلابِ اسلامی کی تحریک میں امام خمینی (رح) کے ہمراہ ان کا کردار بھی نمایاں تھا۔

آیت‌الله سید محمد علی شیرازی مرحوم نے اپنے والد کے ہمراہ نجف سے مشہد تک دینی تعلیم، سیاسی جدوجہد اور عوامی خدمت کے اصولوں کو سیکھا اور ان کی وفات کے بعد اس روشنی کو برقرار رکھا۔

آیت‌ اللہ سید محمد علی شیرازی کی شخصیت میں سیاسی بصیرت اور ہوشمندی نمایاں صفات میں شامل تھیں۔ وہ اسلامی دنیا کے بیشتر واقعات پر بے طرفی کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے بلکہ ان پر اپنا ایک واضح مؤقف اپناتے تھے۔ شاید ہی کوئی ان کے برابر ان مسائل پر بیانات جاری کرنے والا ہو اور ان کے بیانات میں خاص بصیرت اور دوراندیشی نمایاں ہوتی تھی۔

مرحوم شیرازی اسلامی دنیا کے مسائل پر دقیق نظر رکھتے تھے اور مختلف مواقع پر اپنے بیانات کے ذریعہ مسلمانوں کی رہنمائی بھی کرتے تھے۔ مثلاً مصر کے شیعی رہنما شیخ حسن شحاطہ کی شہادت پر ان کے جذبات قابل ذکر ہیں۔ وہ ان کے اعزاز میں بڑے بڑے اجتماعات اور مجالس عزا منعقد کیں اور ان کی تصویر کو ہمیشہ اپنے والد محترم کی تصویر کے ساتھ رکھا کرتے اور اخوانی سلفیوں کے ہاتھوں ان کی مظلومانہ شہادت کو اکثر یاد کیا کرتے۔

اسی طرح افغانستان، پاکستان، سعودی عرب، مصر اور دیگر ممالک کے مظلوم شیعیان کے حقوق کے لیے بھی ان کا جذبہ مثالی اور قابلِ دید ہوتا تھا۔ اور اگر ان کے لئے کچھ نہ بھی کر سکتے تو ان کی حمایت اور ظالموں کی مذمت میں مسلسل بیانیہ جاری کیا کرتے۔

ان کی شخصیت کا ایک اور بہترین پہلو ان کی خوش اخلاقی اور عوامی روابط تھے۔ ہر طبقے کے لوگ ان سے ایک جذباتی تعلق محسوس کرتے تھے اور یہی ان کی کامیابی کا راز تھا۔

آیت‌ اللہ سید محمد علی شیرازی کی خدمات، علمی و سیاسی بصیرت اور ان کی شخصیت کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی وفات صرف ایک شخصیت کا نقصان نہیں بلکہ ایک عہد کے خاتمے کے مترادف ہے۔

یہ ممتاز عالم دین، موجودہ سال کی شبِ اربعین کو شدید فالج کے حملے کا شکار ہوئے اور کافی عرصہ تک اسپتال میں زیرِ علاج رہے۔ ان کی حالت کبھی بہتر اور کبھی خراب ہوتی رہی، یہاں تک کہ انہوں نے اس فانی دنیا کو الوداع کہہ دیا۔

اطلاعات کے مطابق ان کے جسدِ خاکی کو مشہد میں تشییع کے بعد نجفِ اشرف منتقل کیا جائے گا، جہاں انہیں دفن کیا جائے گا۔

ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ ان کی روحِ پُرفتوح کو ان کے پاک اجداد کے ساتھ محشور فرمائے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .