حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اجمیر تاراگڑھ میں مولانا سید نقی مہدی زیدی نے نمازِ جمعہ کے خطبوں میں نمازیوں کو تقویٰ الٰہی کی نصیحت کرتے ہوئےکہا کہ تقویٰ یہ ہے کہ انسان ہر اس چیز سے پرہیز کرے جو اس کو گناہگار بنائے انسان کو چاہیے اس راستے پر قدم ہی نہ رکھے جس میں آگے چل کر گناہ کا امکان ہو، جو آخرت کی کامیابی کو دوست رکھتا ہے اس کے لئے تقوی ضروری ہے۔
امام جمعہ تاراگڑھ مولانا سید نقی مھدی زیدی نے امام حسن عسکری علیہ السلام کے وصیت نامہ کی شرح و تفسیر کرتے ہوئے کہا کہ انسان کے وجود اور کمال میں دو شخصیات کا کردار ہوتا ہے: (1)والدین: جو دنیا میں آنے کا سبب بنتے ہیں۔ (2)استاد: جو عالَم مادہ سے عالَمِ روحانیت کے ساتھ رابطہ مضبوط کرتے ہیں۔والدین بولنا سکھاتے ہیں اور استاد کب بولنا،کہاں بولنا اور کیسے بولنا سکھاتے ہیں۔والدین کے ساتھ ساتھ روحانی باپ(استاد)کا زیادہ کمال ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تفسیر کبیر میں فخر الدّین رازی نے لکھا ہے: کہ استاد اپنے شاگرد کے حق میں ماں باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا کی آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں جبکہ اساتذہ شاگرد کو نارِ دوزخ اور مصائب ِ آخرت سے بچاتے ہیں ۔
خطیب جمعہ تاراگڑھ نے کہا کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے استاد کے بہت سارے حقوق بیان کئے ہیں جن میں 6 حقوق یہ ہیں:
(1) اَلتَّعْظِیْمُ لَہُ:استاد کا احترام کرو۔
(2) وَلَا تُحَدِّثُ فِیْ مَجْلِسِہٖ اَحَدًا:دورانِ کلاس استاد کے سامنے آپس میں بات نہ کرو۔
(3) وَاَنْ تَدْفَعُ عَنْہُ اِذَا ذُکِرَ عِنْدَکَ بِسُوْءٍ:اگر کوئی استاد کی برائی کر رہا ہو تو اپنے استاد کا دفاع کرو۔
(4) وَاَنْ تَسْتُرْ عُیُوْبَہُ وَتُظْھِرْ مَنَاقِبَہُ:اپنے استاد کے عیب چھپاؤ اور اپنے استاد کے اوصاف ظاہر کرو یعنی بیان کرو۔
(5) اَکْرِمِ الْاُسْتَاذَ وَلَوْ کَانَ فَاسِقًا:استاد کا احترام کرو چاہے وہ فاسق ہی کیوں نہ ہو۔
(6) وَلَا تُجِیْبَ اَحَدًا یَسْئَلُہُ عَنْ شَیْئٍ حَتّٰی یَکُوْنَ لَہُ ھُوَ الَّذِی یُجِیْبُ:استاد کی موجودگی میں اگر کوئی شخص سوال کرے تو استاد محترم سے پہلے جواب نہ دو۔
مولانا نقی مہدی زیدی نے بیان کیا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"يجيء الرجل يوم القيامة، وله من الحسنات كالسحاب الركام، أو الجبال الراوسي فيقول: "يا رب أنى لي هذا ولم أعملها؟" فيقول: "هذا علمك الذي علمته الناس، يعمل به من بعدك"
قیامت کے دن ایک شخص آئے گا جس کے لیے گھنے بادلوں کے برابر یا فلک بوس پہاڑوں کے برابر حسنات اور نیکیاں ہوں گی۔ یہ شخص خود تعجب کرتے ہوئے اللہ تعالی سے فریاد کرے گا: اے میرے پروردگار! مجھے یہ سب کچھ کس طرح ملا ! جب کہ میں نے تو اتنے اعمال انجام نہیں دئیے۔ تب اللہ تعالٰی فرمائے گا: یہ تمہارا وہ علم ہے جو تم نے دوسروں کو سکھایا اور دنیا میں تمہارے بعد اس پر عمل کیا جاتا رہا۔
امام جمعہ تاراگڑھ نے کہا کہ ماہ جمادی الثانی کے آخری ایام ہیں اور ماہ رجب المرجب کا آغاز ہونے والا ہے، زمین و زمان یکساں نہیں ہیں جس طرح راتوں میں شب قدر ممتاز رات ہے، دنوں میں روز جمعہ دنوں کا سردار ہے اسی طرح ماہ رجب بھی دوسرے مہینوں سے امتیاز رکھتا ہے اس مہینے کو محترم یا حرمت والے مہینوں میں شمار کیا گیا ہے جس میں جنگ و جدال کو روک دیا جاتا تھا اس مہینے کی بڑی فضیلتیں ہیں اور اولیاء الہی نے اسے خاص اہمیت دی ہے اس مہینے کے حوالے سے چند باتیں اور نصیحتیں ہیں جو ائمہ معصومین علیہم السلام کی روایات کی روشنی میں علمائے ربانی نے بیان کی ہیں۔
مرحوم سید ابن طاوؤس رہ اپنی کتاب مراقبات میں ماہ رجب کے آغاز پر بیان کرتے ہیں کہ ماہ حرام کی حرمت کی بنیاد عربوں کے اس معاہدے پر تھی جس میں وہ اپنی مسلسل جنگوں اور خونریزیوں کو چار مہینے میں روک دیتے تھے یہ مہینے ان کے لئے آرام اور سکون کا وقت تھے جس دوران وہ اپنی ذاتی زندگی ، قبائلی امور اور اپنے اہل و عیال کی دیکھ بھال کرتے تھے۔
سید ابن طاوؤس مزید فرماتے ہیں جب جاہلیت کے عرب ماہ رجب کی حرمت کا احترام کرتے تھے تو ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اس مہینے میں خدا سے جنگ نہ کریں۔ یہ مہینہ خود کو خدا کے قریب کرنے اپنے اعمال کی اصلاح کرنے اور گناہوں سے اجتناب کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔
خطیب جمعہ نے مزید کہاکہ رجب شعبان اور رمضان کے مہینے روحانی لحاظ سے سال کے ممتاز ترین مہینے ہیں۔
آپ کا تبصرہ