حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا سید احمد علی عابدی نے جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک روایت میں، امام کاظم علیہ الصلوۃ والسلام کی امامت کا مسئلہ ہے اور اس بات کی آپ کی خدمت میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ جو یہ لکھا جاتا ہے کہ یہ امامت کا پہلا دن ہے تو توجہ رہیں کہ امامت کوئی ایسا سرکاری عہدہ نہیں ہے کہ اس کے لیے کوئی سرمنی منعقد ہو، کوئی حلف برداری ہو اور کچھ لوگ آئیں اور نہ ہمارے یہاں امامت کوئی تاج گزاری ہے کہ امام کے سر پر تاج رکھا جائے، نہ ہی کوئی تقریب ہوتی ہے کہ بڑوں کو بلایا جائے اور یہ آنے والا امام قرآن پر ہاتھ رکھ کے حلف لے، یہ سب ہمارے یہاں نہیں ہے، ہمارے یہاں خداوند عالم نے جن کو امام بنایا ہے ان سے امامت کا عہد اس دنیا کی خلقت سے ہزاروں سال پہلے لے چکا ہے، وہ دنیا میں آنے سے پہلے امام بنائے جا چکے ہیں اور جس وقت کسی امام یا رسول کا انتقال ہوتا ہے تو اس کے دوسرے لمحے بغیر کسی فاصلے کے دوسرے امام کی امامت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ آج امام کا انتقال ہوا ہے تو وہ دفن ہوں گے، لوگ واپس آئیں گے پھر حلف لیا جائے گا پھر سر منی ہوگی، نہیں ایسا کوئی مسئلہ ہمارے یہاں نہیں ہے، گذشتہ امام کا انتقال ہوا یا وہ شہادت کے درجے پر فائز ہوئے اس کے دوسرے لمحے بغیر کسی مائیکرو سیکنڈ کے فاصلے کے امامت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر سلسلہ امامت پلک جھپکنے کے برابر بھی منقطع ہو جائے تو دنیا تباہ و بربادی ہو جائے گی۔
مولانا سید احمد علی عابدی نے ولادت کے بجائے نزول کہنے کے سلسلے میں کہا کہ آج یہ نزول کا مسئلہ ہو رہا ہے، آیا ہم ان نئے لوگوں کی باتوں پر عمل کریں؟ جو نئی فکر لے کر آئے ہیں۔ نزول کا مطلب کیا ہے؟ نزول کا مطلب، یعنی آئمہ معصومین علیہم السّلام کسی کے بطن میں نہیں رہے جیسے اللہ تعالی نے آسمان سے قرآن نازل کیا، قرآن کسی کے پیٹ میں نہیں رہا جبریل لے کر آئے تو کیا معصومین علیہم السلام بھی آسمان پر تھے اور کسی کے بطن میں نہیں تھے اور اگر آپ اخبار کی بات کیجیے روایتوں کی بات کیجیے تو قدیم ترین کتاب اصول کافی دیکھ لیجیے، اگر بات حدیث کی ہے اخبار کی ہے تو آپ حدیث دیکھ لیجیۓ، آیا اس میں امام کے تعلق سے نزول کا لفظ استعمال کیا، یا موالید استعمال کیا گیا ہے؟ اگر کتاب میں نزول کا لفظ استعمال ہوا ہے تو آپ نزول استعمال کیجئے، لیکن اگر کتاب میں موالید، یعنی آئمہ معصومین علیہم السلام کی ولادتوں کا تذکرہ ہے تو معصومین علیہم السلام نے جب اپنے لیے ولادت کا تذکرہ کیا ہے تو ہم ان کے لئے نزول کا تذکرہ کرنے والے کون ہیں؟ کیا ہم معصومین علیھم السلام سے زیادہ سمجھنے والے ہیں یا ان کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آپ جو ولادت کا تذکرہ کر رہے ہیں معاذ اللہ، معاذ اللہ، معاذ اللہ آپ کا نزول ہوا ہے، ولادت غلط کہہ رہے ہیں؛ معاذ اللہ، معاذ اللہ، تو معصومین علیہم السلام سے زیادہ سمجھدار بننے کی کوشش مت کیجئیے جو معصومین علیہم السلام نے کہا ہے وہی کہیں۔
مولانا سید احمد علی عابدی نے مزید کہا کہ آپ کتابوں میں دیکھیے، حدیث کی کتابوں میں دیکھیے، تاریخ کی کتابوں میں دیکھیے ہر جگہ لفظ ولادت ہے، لفظ نزول نہیں ہے، لفظ نزول کا مطلب کیا ہوگا، یعنی آئمہ معصومین علیہم السّلام کسی کے باپ اور کسی کے بیٹے نہیں ہیں۔ جس طرح قرآن نہ کسی کا باپ ہے نہ کسی کا بیٹا ہے، تورات و انجیل نہ کسی کے باپ ہیں نہ کسی کے بیٹے ہیں، خدا نے قرآن نازل کیا قرآن کسی کا باپ بیٹا نہیں ہے تو ہم کیا کہتے ہیں؟ علی (علیہ السلام) کہتے ہیں یا علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کہتے ہیں؟ آپ حسین (علیہ السلام) کہتے ہیں یا حسین ابن علی (علیہما السلام) کہتے ہیں؟ امام کاظم کو موسی(علیہ السلام) کہتے ہیں یا موسی ابن جعفر (علیہما السلام) کہتے ہیں؟ اگر سب جگہ امام کے ساتھ "ابن" لگا ہوا ہے، "فرزند" لگا ہوا ہے تو اس کا مطلب ان کی ولادت ہے۔ آپ نزول کا لفظ استعمال کر کے ان کی امامت کا انکار کر رہے ہیں یعنی یہ کسی کے نہ بیٹے ہیں نہ کسی کے باپ ہیں، جیسے قرآن نہ کسی کا بیٹا ہے نہ کسی کا باپ ہے، اللہ نے قران نازل کیا ہے۔ کیوں کہتے ہیں علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ؟ آپ کیوں کہتے ہیں حسین ابن علی (علیہما السلام) ؟ آپ کیوں کہتے ہیں زیارت میں "السلام علیک یا ابن رسول اللہ"، "السلام علیک یا ابن امیر المومنین"، "یا ابن فاطمۃ الزہرا" تو اکثر جگہ تو "ابن" کا لفظ استعمال کر رہے ہیں تو آپ امامت کے مرحلے میں اماموں سے آگے بڑھنے کی کوشش مت کریں کیونکہ روایت میں ہے جو ان سے آگے بڑھ جائے گا وہ بھی ہلاک ہوگا اور جو پیچھے رہے گا وہ بھی ہلاک ہوگا۔
مولانا سید احمد علی عابدی نے کہا کہ یہ امامت کا سلسلہ ہے اللہ نے معین کیا ہے اور یہ سلسلہ اس دنیا کی خلقت سے لاکھوں سال پہلے جب کچھ بھی نہیں تھا تو خداوند عالم میں ہمارے 12 اماموں کے امام بنایا ہے اور ان کی امامت کا باقاعدہ تذکرہ کیا ہے۔
آپ کا تبصرہ