تحریر: ام ابیہا
سوشل میڈیا پر فلسطینی( شہیدہ) دینا نامی لڑکی کی تصاویر اور وڈیوز وائرل ہوئیں جو کہ ایک آرٹسٹ تھی، حالیہ صیہونی نسل کشی کے دوران وہ شہداء کے اسکیچز بناکر دفاعی انداز میں لوگوں کے درمیاں تقسیم کیا کرتی تھی۔ایک اور نوجوان فاطمہ نامی خاتون فوٹو جرنلسٹ تھی ان کا کام بھی یہی تھا کہ وہ غاصب اسرائیل کے بدترین انسانوں کی شقاوتوں کی عکسبندی میں مصروف رہا کرتی اور یوں اہلیانِ غزہ کی مقاومت اور دشمن کی شقاوت و سفاکیت کو دنیا کے سامنے پیش کرتی رہی اور اسی راہ میں دونوں شہادت کے مقام پر جا پہنچیں۔
دینا اور فاطمہ محض آرٹسٹ نہیں تھیں، بلکہ دونوں نے اپنے اپنے ہنر کے ذریعے ظالم کے منہ پر طمانچہ رسید کیا اور دنیا بھر کے آرٹسٹس اور فوٹو جرنلسٹس کو بتلایا کہ قلم و قرطاس اور کیمرے محض آلہ نہیں، بلکہ ان کو ہتھیار بنا کر دشمن کی تیغِ ستمگار کو شکست دینے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اب بات کرتے ہیں اسرائیلی و امریکی بالادستی کی جو کہ عالمی سطح پر اس وقت بڑے چیلنج کا شکار ہے؛ کسی بھی قوم کی شکست کے لیے ضروری ہے کہ اس کی اقتصادی طاقت کو کمزور کیا جائے؛ سب ہی جانتے ہیں غاصب اسرائیل کی حمایت کرنے والا امریکہ کی معشیت چین کی اقتصادی طاقت کا مقابلہ نہیں کر پارہی، جبکہ دنیا بھر میں فوجی اقدامات کی وجہ سے اس کے دفاعی اخراجات میں بھی بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے ۔
گزشتہ دورِ صدارت میں ٹرمپ کا کہنا یہ تھا کہ ہم نے مشرق وسطیٰ میں سات ٹریلین (یعنی سات ہزار ارب) ڈالر خرچ کرنے کہ باوجود کوئی کامیابی حاصل نہیں کی، امریکی بالادستی خاتمے کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے؛ بالکل اسی طرح اسرائیلی بالادستی کے خاتمے کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس کا معاشی بائیکاٹ کریں۔
بحیثیتِ مسلمان ہمارا دینی اور ملی فریضہ بنتا ہے کہ ہم ان تمام مصنوعات اور کمپنیوں کا معاشی بائیکاٹ کریں جو کسی بھی طرح غاصب اسرائیل کو اپنی کمائی میں حصہ دے رہی ہیں یا ان کو کسی بھی طرح کا تعاون و امداد فراہم کر رہی ہیں۔
سوشل میڈیا پر شروع ہونے والی اس بائیکاٹ مہم کا رجحان عوامی سطح پر دیکھا جاسکتا ہے، تاہم پاکستانی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے اسرائیلی مصنوعی مواد کی تشہیر و فروانی برقرار ہے۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ پاکستانی ملٹی میڈیا کے کمرشلز میں پروڈکٹس کی فروخت کے لیے Advertising یا اس پروڈکٹ کو مارکیٹ میں لانے کے لیے پاکستانی اداکاروں اور ماڈلز کا استعمال جاری ہے، جیسا کہ ٹی وی پروگرام اور سوشل میڈیا پر کلپس بنا کر پروڈکٹ کی آگاہی دی جاتی ہے؛ یہاں پر اس بات کی طرف اشارہ کرنا بھی لازمی ہے کہ آگاہی کی آڑ میں دشمن کے اصل حقائق و مسائل کو چھپانے کا حربہ ہے۔
اس کو کہتے ہیں میڈیا اسموک اسکرین کا استعمال، یہ ٹیکنک نیوز چینلز پر بھی عام ہے۔
تجزیہ کاروں، صحافیوں اور عوام کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ سمجھیں اسموک اسکرین ایک نفسیاتی اور ٹیکنک (حربہ) ہے جس کا مقصد ہے لوگوں کو گمراہ کرنا اور ان کی توجہ ہٹا کر کسی بھی ایجنڈے کو آگے بڑھانا۔
اسموک اسکرین تینکوں کی تفصیل یہاں نہیں بیان کریں گے، البتہ غلط سراغ دینا ( Red Hearing) ایک ایسا ٹیکنک ہے جس کے ذریعے گمراہ کن معلومات دے کر اصل مسئلے سے توجہ ہٹائی جاتی ہے یہ ٹیکنک پاکستانی میڈیا کے کمرشلز اور نیوز میں دیکھا جاسکتا ہے، جہاں پروڈکٹ کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کے لیے پاکستانی مشہور شخصیات کو استعمال کیا جاتا ہے اور وہ (سلیبٹریز) بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں بغیر پرواہ کیے کہ آیا یہ پروڈکٹ کہیں اسرائیل کا تو نہیں، لہٰذا اسرائیلی بالادستی کے خاتمے کے لیے اہم ہے کہ اس کی معشیت کی طاقت کو کمزور کیا جائے تو خود ہی ان کی فوجی بالادستی کی طاقت بھی ختم ہو جائے گی۔
آخر میں پاکستانی میڈیا اور ادکاروں اور فنکاروں کو مشورہ ہے کہ کسی بھی ایسی سرگرمی کا حصہ نہ بنیں کہ جس کی وجہ سے دشمن کی پشت پناہی اور دوست ( فلسطین) کو نقصان ہو، کیونکہ دشمن ایجنڈے کو کسی بھی اقتصادی سطح پر فروغ دینا فلسطین پر ظلم کرنے کے مترادف ہے، لہٰذا دینا اور فاطمہ کی طرح پاکستانی میڈیا اپنے کیمرے اور اداکارائیں اپنے ہنر اور فن کو ہتھیار بنا کر دشمن کی تیغِ جفا کو شکست دینے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔









آپ کا تبصرہ