حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے 11 ذی ذیقعد (148 ھ) امام ہشتم امام علی بن موسی رضا علیہما السلام کے یوم ولادت باسعادت کے مبارک موقع پر جاری اپنے پیغام میں کہا: حکمرانوں کیلئے امام رضا علیہ السلام کے مقام و مرتبے اور عظمت کے پیش نظر اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ امام علیہ السلام کو امور مملکت میں شامل کرکے ان سے مشاورت و رہنمائی حاصل کریں۔ چنانچہ امت مسلمہ کے وسیع تر مفاد میں اس منصب کو قبول کر کے عالم اسلام اور انسانیت کی رہبری و رہنمائی کی۔
انہوں نے مزید کہا: امام ثامن علیہ السلام نے بحث و نظرکے میدان میں خاص طور پر اس دور کے بڑے بڑے مدمقابل کو لاجواب کیا جن میں خاص طو ر پر سلیمان المروی خراسانی، علی ابن محمد اور زندیق کے ساتھ دلائل و براہین پر مبنی گفتگو قابل ذکر ہیں۔ جس سے معروف کرخی جیسے نامور عیسائی عالم نے مذہب اسلام قبول کیا۔ اسی طرح طب کے شعبہ میں رہنمائی کر کے رہتی دنیا تک انسانیت کی خدمت کی راہیں متعین کیں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں ایسی ہی رہنمائی فراہم کی۔
علامہ ساجد نقوی نے کہا: دین اسلام کی اساس اور بنیاد کو مستحکم کرنے اور اپنے جد امجد پیغمبر گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے زمانے کو بہرہ مند کرنے کی خاطر اپنے والد گرامی کی حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کے بعد انتہائی مشکل اور نامساعد حالات میں منصب امامت کی ذمہ داریاں نبھائیں اور کرامات کے میدانوں میں خاص طور پر دین اسلام کی نشر و اشاعت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے پیغمبرانہ مشن کی تکمیل کے لئے کوشاں رہے۔
انہوں نے کہا: معروف اسلامی مورخ "الذھبی" نے امام رضا علیہ السلام کی مدح و ثنا کرتے ہوئے تحریر کیا کہ "وہ امام ابوالحسن ہیں اور اپنے دور کے ہاشمیوں کے آقا و سردار ہیں وہ ان میں سے سب سے زیادہ شگفتہ اور متقی و پرہیزگار ہیں۔ مامون نے ان کے اس احترام کے سبب انہیں جانشین مقرر کیا"۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت و کردار کو اپنا کر دنیوی و اخروی نجات کا سامان فراہم کیا جا سکتا ہے اور امام رضا علیہ السلام کی حیات طیبہ کا مطالعہ کر کے اور ان کے اقوال و افعال کی تقلید کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو دین اسلام کے سانچے میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ امام ہشتم امام رضا علیہ السلام کا مزار مقدس مشہد میں آج بھی مرجع خلائق ہے۔
آپ کا تبصرہ