منگل 13 مئی 2025 - 16:07
اہل بیت (ع) کا گمراہ افراد سے برتاؤ؛ تربیت اور شفقت پر مبنی نمونہ

حوزہ/ ایک مثالی اور آئیڈیل معاشرے کی تشکیل اس وقت ممکن ہے جب اس کے افراد ایک دوسرے کے کردار اور رشد و تربیت کو اہمیت دیں۔ اگر ہر شخص صرف ذاتی اصلاح اور خودسازی پر توجہ دے اور دوسروں کی تربیت سے غافل رہے تو ایسا معاشرہ کبھی ابدی سعادت تک نہیں پہنچ سکتا۔

حوزہ نیوز ایجنسی | اسلام نے انسان کو کمال اور دائمی نجات کی طرف رہنمائی کے لیے فردی اور اجتماعی دونوں قسم کے تربیتی پروگرام پیش کیے ہیں۔ چونکہ معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے اس لیے ایک مثالی اور آرمانی سماج کی بنیاد تبھی رکھی جا سکتی ہے جب اس کے افراد ایک دوسرے کی ہدایت اور رشد کا احساس کریں۔

اہل بیت علیہم السلام کا طرزِ عمل ان لوگوں کے ساتھ جو گمراہ ہو چکے تھے یا حق کے راستے سے ہٹ گئے تھے، عمومی طور پر رحمت، ہدایت اور حق کی دعوت پر مبنی ہوتا تھا۔ وہ ہمیشہ مختلف طریقوں سے لوگوں کو حق اور ہدایت کی طرف بلاتے تھے۔ ذیل میں اس حوالے سے اہل بیت علیہم السلام کی سیرت کے چند نمایاں پہلو پیش کیے جا رہے ہیں:

حق کی طرف دعوت: اہل بیت علیہم السلام ہمیشہ لوگوں کو حق کی طرف بلاتے اور انہیں استدلال اور منطق کے ذریعہ اپنے عقائد پر غور و فکر کی دعوت دیتے۔

رحمت و محبت: اہل بیت علیہم السلام کا رویہ گمراہوں کے ساتھ رحمت و محبت پر مبنی ہوتا۔ وہ سزا یا سختی کے بجائے شفقت و مہربانی سے دلوں کو خدا اور دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کی طرف مائل کرتے۔

تعلیم و تربیت: وہ تعلیم و تربیت کو بہت اہمیت دیتے۔ احادیث، قرآن کریم کی آیات اور دینی تعلیمات کے ذریعہ لوگوں کو دین کی صحیح فہم عطا کرتے۔

صبر و تحمل: اہل بیت علیہم السلام نے گمراہیوں اور انحرافات کے مقابلے میں بے پناہ صبر کا مظاہرہ کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہدایت ایک تدریجی عمل ہے جس میں صبر و بردباری درکار ہے۔

نقد و اصلاح: وہ باطل عقائد اور گمراہ نظریات پر تنقید کرتے اور منطقی دلائل کے ساتھ ان کی اصلاح فرماتے۔

فردی حالات کا لحاظ: وہ ہر فرد کے ذاتی و سماجی حالات اور اس کے ماحول کو مدنظر رکھتے اور اسی کے مطابق اس کی ہدایت کے لیے مناسب طریقہ اپناتے۔ خلاصہ یہ کہ اہل بیت علیہم السلام کی سیرت، گمراہوں کے ساتھ رحمت، حکمت اور صبر کا ایک روشن نمونہ پیش کرتی ہے جو ہر شیعہ کے لیے دینی اور اخلاقی تعامل میں قابلِ اقتداء ہے۔

امام سجاد علیہ السلام کی سیرت سے ایک عملی مثال:

ہشام بن اسماعیل کلفاء بنی مروان کی جانب سے مدینہ کا حاکم تھا۔ وہ لوگوں خصوصاً امام زین العابدین علیہ السلام کے ساتھ بدسلوکی کرتا۔ ولید بن عبدالملک کے دور میں جب وہ معزول ہوا تو اسے لوگوں کے سامنے ذلیل کرنے کا حکم دیا گیا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ ہشام نے کہا: "مجھے کسی کی پرواہ نہیں صرف علی بن حسین سے ڈر لگتا ہے"۔ مگر امام سجاد علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو تاکید کی کہ ہشام کے بارے میں کوئی نامناسب بات نہ کریں۔ جب امام علیہ السلام اور ان کے اصحاب ہشام کے پاس سے گزرے اور اس سے کوئی ناپسندیدہ کلام نہ کیا تو ہشام نے کہا: "واللّه اعلم حیث یجعل رسالته" یعنی اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کس کو عطا کرے"۔

ایک اور روایت کے مطابق امام سجاد علیہ السلام نے ہشام سے یہ بھی فرمایا کہ اگر تمہاری کوئی ضرورت ہو تو ہم اسے پوری کریں گے۔ (ترجمة الامام الحسن، ابن عساكر، ص 150، حديث 251 / وفيات الأعيان، ج 2، ص 67)

مرتبہ: مریم فلاحی، متعلم حوزہ علمیہ

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha