حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شمال مشرقی فرانس میں واقع ایک قدیمی مسجد پر شرپسند عناصر نے حملہ کر کے نہ صرف مسجد کو نقصان پہنچایا بلکہ قرآن کریم کی بھی توہین کی۔ اس حملے نے فرانسیسی مسلمانوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے اور اسلاموفوبیا میں اضافے پر تشویش کو مزید بڑھا دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، یہ حملہ موسلے کے علاقے سنت آولد کے قریب واقع ایک پرانی مسجد پر کیا گیا، جو پہلے ایک مسلم تنظیم کے زیر انتظام تھی۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ مسجد کے فرش، قالین اور فرنیچر کو شدید نقصان پہنچایا گیا، جبکہ دیواروں پر صلیب شکنی اور شیطان پرستی کے نشانات پینٹ کیے گئے تھے۔ مسجد میں جزوی آگ لگنے کے آثار بھی پائے گئے۔
اسلامی انجمن کے ذمہ داران نے بتایا کہ جائے وقوعہ سے جلائے گئے ٹائروں کے باقیات اور دھماکہ خیز مواد سے بھری ہوئی بوتلیں بھی برآمد ہوئیں، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ حملہ آور مسجد کو مکمل طور پر نذر آتش کرنا چاہتے تھے۔
علاقائی میونسپل کونسل کے مشیر ٹریستان آتمانیا نے اس حملے کو "نسلی منافرت پر مبنی کارروائی" قرار دیتے ہوئے کہا کہ "یہ جرم ہمارے سماجی اتحاد کے دل پر کاری ضرب ہے۔"
علاقے کے میئر امانوئل شولر نے بھی واقعے کو "ناقابل قبول اور ناقابل تحمل" قرار دیا۔
یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب ایک ماہ قبل فرانس ہی میں 22 سالہ مسلمان نوجوان کو مسجد میں نماز کے دوران سرد ہتھیار سے حملہ کر کے شہید کر دیا گیا تھا۔
تاحال فرانسیسی حکام ان حملہ آوروں کی شناخت اور گرفتاری میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
فرانس بھر کے مسلمانوں نے اس حملے پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اسلام دشمنی کے بڑھتے واقعات کو سنجیدگی سے روکا جائے اور مذہبی عبادت گاہوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔









آپ کا تبصرہ