حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، مجلس خبرگان رہبری کے رکن آیت اللہ عباس کعبی نے رہبر معظم انقلاب اسلامی کے فتوے، یعنی بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی حرمت کے بنیاد ی اصولوں پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: جوہری ہتھیاروں اور اس کی تابکاری کے ساتھ ماحولیاتی آلودگی سے انسانیت کی زندگی اور کرہ ارض کی زندگی کو خطرہ ہے۔ 1945 میں ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے تجربے اور پھر 1986 میں چرنوبل حادثے میں رونما ہونے والی ایٹمی تابکاری کے بعد انسانیت کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کی پیداوار اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ایٹمی تابکاری کے خطرات واضح ہو گئے کہ اس قسم کے ہتھیار تمام جانداروں کو تباہ اور برباد کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ایٹمی تجربات پانی کی گہرائیوں یا خالی صحراؤں میں کیے جائیں تو بھی انسانیت کے لیے خطرہ رکھتے ہیں۔ اس ہتھیار کے استعمال سے آنے والی نسلوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر صدام نے حلبچہ میں جو کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ان کے اثرات اب بھی باقی ہیں۔
مجلس خبرگان رہبری کے رکن نے کہا: جمہوریہ اسلامی ایران، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خلاف معاہدوں کی بھرپور حمایت کرتا ہے جبکہ امریکہ اور صہیونی حکومت ایٹمی اسلحے کی تیاری اور ذخیرہ اندوزی کے ذریعے بنی نوع انسان کی حیات کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ایٹمی ہتھیار اور اس کی تابکاری ماحولیات کو نقصان پہنچاتے ہیں اور جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے "حرث و نسل" یعنی انسانوں کی نسل اور زمین پر زندگی کی نابودی کا باعث بنتے ہیں۔ پس ایٹمی اسلحہ طاقت کا ذریعہ نہیں بلکہ "فساد فی الارض" ہے۔
آیت اللہ کعبی نے کہا: اسلام صرف معقول، مشروع اور انسانی طریقوں سے قدرت حاصل کرنے کو جائز قرار دیتا ہے لہٰذا وہ طریقے جو فساد فی الارض پر مبنی ہوں، اسلام میں نہ صرف ناقابل قبول بلکہ حرام، محکوم اور ابدی ہیں۔ یہ حکم کسی استثنا کا متحمل بھی نہیں اور نہ ہی اس پر کوئی تبصرہ لگایا جا سکتا ہے کیونکہ یہ بشریت کی تباہی اور معصوم و غیر فوجی انسانوں کے قتل پر منتج ہوتا ہے۔
انہوں نے عقلی بنیاد پر وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا: عقل کا تقاضا ہے کہ "مادۂ فساد" کو ختم کرنا واجب شرعی ہے۔ اگر ایٹمی، کیمیائی یا جرثومہای ہتھیار مادہ فساد ہیں تو انہیں ختم کرنے کے لیے ایسے معاہدوں میں شامل ہونا چاہیے جو ان کی تیاری، پھیلاؤ اور ذخیرہ کو روکتے ہوں۔ اسی لیے جمہوریہ اسلامی ایران ان معاہدوں کا حامی ہے۔

آیت اللہ کعبی نے اسلامی تعلیمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: اسلامی اخلاق اور بین الاقوامی بشردوستانہ قانون کے مطابق، جنگ کے دوران خواتین، بچے، بوڑھے، غیر فوجی افراد، ان کی زمین، کھیتی اور جانوروں پر حملہ ممنوع ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی لشکر کو روانہ کرتے تو تقویٰ، اللہ کے نام پر جہاد، خیانت سے پرہیز، بچوں کا قتل، کھیتوں کو آگ نہ لگانا، درختوں کو نہ کاٹنا، جانوروں کو نہ مارنا جیسے امور کی سختی سے تاکید فرماتے۔
انہوں نے مزید کہا: ایک روایت کے مطابق امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکین کے علاقوں کے پانی میں زہر ڈالنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا اور فقہاء کی ایک بڑی تعداد نے بھی دشمن کے پانی میں زہر ڈالنے کو حرام قرار دیا ہے۔ چنانچہ جب ایک محدود مقام پر زہر ڈالنا حرام ہے تو بطور اولیٰ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری، ذخیرہ اندوزی اور استعمال بھی حرام ہے کیونکہ وہ عالمی سطح پر انسانوں کی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔
آیت اللہ کعبی نے کہا: اسلامی تعلیمات کے مطابق صرف ان لوگوں سے جنگ کی جا سکتی ہے جو خود جنگ کر رہے ہوں اور غیر جنگجو دشمن امن میں ہیں۔ اسلام، طاغوت اور کفری طاقتوں کے خلاف میدان میں آتا ہے تاکہ مستضعفین کو نجات دے، نہ کہ انہیں قتل کرے لہٰذا جو افراد نجات کے مستحق ہیں، انہیں قتل کرنا اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔
انہوں نے اپنی گفتگو کا نتیجہ پیش کرتے ہوئے کہا: جھلسی ہوئی زمین (scorched earth) کی پالیسی اور جنگ میں ایسا کوئی ہتھیار استعمال کرنا جو بشریت کو ختم کر دے حرام اولیٰ، ابدی اور استثنا ناپذیر ہے۔
میری رائے یہ ہے کہ رہبر انقلاب اپنی فقہی بحث کی بنیاد پر دشمن کے فوجیوں، بالخصوص طاغوتی، فاسد اور متکبر فوجیوں کے خلاف جہاد، قتال اور جنگ کو جائز سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک جہاد کا مقصد غیر فوجی افراد کو نقصان نہ پہنچانا ہے۔ لہٰذا وہ بنیادی اور اصولی طور پر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری، ذخیرہ اندوزی اور استعمال کے مخالف ہیں اور ان کا فتویٰ کسی بھی استثنا کا حامل نہیں ہے۔ وہ جس حرمت کے قائل ہیں وہ ایک ایسی حرمت ہے جو کسی بھی صورت میں استثنا نہیں رکھتی اور چاروں شرعی دلائل (کتاب، سنت، اجماع، عقل) نیز روایات و آیات کی عمومات اور اطلاقات پر مبنی ہے جو مطلق طور پر فساد کو حرام قرار دیتی ہیں۔









آپ کا تبصرہ