حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ممبئی/ ہر سال کی طرح اس سال میں ماہ محرم الحرام کا مرکزی عشرہ پروقار انداز میں مسجد ایرانیان ( مغل مسجد) میں منعقد ہوا۔اس عشرے کی آخری مجلس میں جو شب عاشور منعقد ہوئی ہزاروں سید الشہداء علیہ السلام کے جانثاروں اور چاہنے والوں نے شرکت کی۔ اس مجلس کو گزشتہ چند سالوں کی طرح حجہ الاسلام والمسلمین جناب مولانا سید نجیب الحسن زیدی نے " محبت حسین اور دفاع حق" کے عنوان کے تحت خطاب کیا ۔
انہوں نے سورہ آل عمران کی 31- و 32 نمبر کی آیات کو عنوان گفتگو قرار دیتے ہوئے اپنے بیان میں کہا: "یہ وہ آیاتِ مقدسہ ہیں جو محبت کی حقیقت کو دعویٰ سے عمل کی طرف منتقل کرتی ہیں۔ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو، تو محض زبان سے کہنا کافی نہیں…
اتباعِ رسولؐ شرط ہے! یعنی زندگی کو رسولؐ کے نقشِ قدم پر چلانا ہوگا۔ اور رسولؐ نے جسے بچپن میں اپنی پشت پر بٹھایا، جس کے لیے سجدے کو طویل کیا، جسے اپنے دین کی بقاء کے لیے قربانی کا معیار بنایا —
وہی حسینؑ ابنِ علیؑ ہے…
محبتِ حسینؑ محبتِ خدا کی کسوٹی
انہوں نے محبت حسین کو محبت خدا کا معیار قرار دیتے ہوئے اس بات کو واضح کیا کہ جب میدانِ کربلا میں نیزے حسینؑ کے سینے میں پیوست ہو رہے تھے، تو آسمان چیخ رہا تھا، فرشتے سجدہ ریز تھے، اور زمین تھرتھرا رہی تھی لیکن افسوس! اُمّت کے "ظاہری مسلمان" خاموش تماشائی تھے! یہاں ہمیں سوچنا ہوگا: کیا محبتِ حسینؑ صرف "یا حسینؑ" کہنے کا نام ہے؟ کیا عزاداری کا اصل مقصد آنسو بہا کر فارغ ہو جانا ہے؟ یا پھر حسینؑ کے مشن کو اپنانا، ان کے "انکارِ یزید" کو اپنا کردار بنانا ہے؟
انہوں نے کہا "اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو، تو اتباعِ رسولؐ کرو…" اور رسولؐ نے فرمایا: "حسین منی و أنا من حسین" (حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں) لہٰذا… اتباعِ رسولؐ کا مطلب حسینؑ کے راستے پر چلنا ہے اور حسینؑ کا راستہ صرف "نماز" یا "روزہ" کا راستہ نہیں… بلکہ دفاعِ حق، مزاحمت، قربانی اور قیام کا راستہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کیا آپ نہیں دیکھتے کہ آج: مشرق وسطی میں مسلمان بچوں کے لاشے دفن کیے جا رہے ہیں؟ ایک سپر پاور طاقت حسینیوں کے خلاف مسلسل اپنے مکروہ عزائم کو عملی کر رہی ہے۔
سوال یہ ہے: کیا ہم حسینؑ کے عزادار ہیں، یا صرف مجلسیں سن کر اٹھ جاتے ہیں ہمارے اندر آخر انقلاب کیوں پیدا نہیں ہوتا ؟۔۔۔ آج ہمیں سوچنا ہوگا،اگر حسینؑ آج ہوتے تو کہاں ہوتے؟ کیا وہ خاموش رہتے، یا مظلوم کے حق میں تلوار اٹھاتے؟
یقین جانیں! آج بھی یزیدیت چولے بدل رہی ہے— نام بدل چکا ہے، چہرے بدل گئے ہیں لیکن کردار وہی ہیں۔آج بھی حسینؑ کی صدا گونج رہی ہے "ألا ترَونَ أنَّ الحقَّ لا يُعملُ بهِ، وأنَّ الباطلَ لا يُتَناهى عنْهُ؟" کیا تم نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا اور باطل سے روکا نہیں جا رہا؟
محبتِ حسینؑ کا عملی تقاضا
انہوں محبت کے عملی تقاضے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہمیں چاہیے کہ: یزیدی طرز فکر کو معاشرے سے نکال باہر کریں، مرجعیت کے سائے میں اجتماعی شعور پیدا کریں۔ حسینی موقف کے بر محل اظہار و اسکی وضاحت کے ذریعے دشمن کی فکری یلغار کا جواب دیں۔ مظلوموں کی حمایت کو اپنا مذہبی و اخلاقی فریضہ سمجھیں۔ اور اپنے بچوں کو حسینؑ کی طرح حق گو، باکردار، اور غیرتمند بنائیں۔ اپنے آنسووں خو ایک عہد کی تعمیر کا حصہ بنائیں اس لئیے کہ جب قیامت کے دن رسولؐ فرمائیں گے: "حسینؑ میرا ہے، تم نے اس سے کیسا سلوک کیا؟" تو کیا صرف ہم کہہ کر کنارے ہٹ جائیں گے ہم نے اسکا غم منایا علم اٹھایا سبیلیں لگائیں یا پھر ہمیں اپنے عمل سے، کردار سے، اور غیرت سے یہ دکھانا ہوگا کہ ہم حسینی ہیں؟
مولانا نے کہا قرآن نے کا اعلان ہے : "اگر تم روگردانی کرو گے، تو جان لو اللہ کافروں سے محبت نہیں کرتا۔" یعنی اگر تم محبت کے دعوے پر عمل نہ کرو… تو تمہاری حیثیت کچھ نہیں!
آئیں عہد کریں کہ: ہم یزیدِ وقت سے بیزار ہیں! ہم حسینؑ کے علم کے سائے میں جیئیں گے! ہم باطل کو بےنقاب کریں گے! اور جب بھی حق و باطل کا معرکہ ہوگا، ہم حسینؑ کے خیمے میں ہوں گے۔ آج بھی وقت کا کربلا ہے میرے بھائیوں حسین ع تنہا ہے اور ہر زمین کربلا ہے ہمیں دیکھنا ہوگا ہمارا کردار کیا ہے؟ کل جو قافلہ چلا، وہ رکنے والا نہیں۔ یہ کاروان حسینؑ ہے یہ، تھکنے والا نہیں ہے اگر ہمیں محبتِ حسینؑ کا دعویٰ ہے
تو پھر قیامِ حق میں خاموش رہنے کا حق نہیں۔
آخر میں مولانا نے سید الشہداء علیہ السلام کے میدان میں جانے اور اہل حرم سے رخصت ہونے کے مصائب بیان کییے اور رقت آمیز مصائب پر گریہ و زاری کی آوازوں پر مجلس اپنے اختتام کو پہنچی۔









آپ کا تبصرہ