تحریر: مولانا سکندر علی ناصری
حوزہ نیوز ایجنسی I مشرق وسطی کے واقعات کا امام زمان علیہ السلام کے ظہور پر تطبیق کرنے کو روایات اور احادیث میں منع کیا ہے اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ جو محققین حضرات روایات اور احادیث کو اپنی علمی، تجربی اور فکری بنیاد پر تحلیل اور تجزیہ کرتے ہیں اور وقائع کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی سعی کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں یہ تحلیل درست بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی۔اگر غلط ہو جائے تو لوگ آہستہ آہستہ ظہور امام الزمان علیہ السلام سے مربوط احادیث سے بدظن ہوجاتے ہیں اور اس اہم امر الہی کے منکر ہوجائیں گے۔ چونکہ یہ ظہور امام مہدی علیہ السلام انسانی تدابیر میں سے نہیں بلکہ یہ تقدیر خداوندی میں سے ہے لہذا روایات اور احادیث کی روشنی میں واقعات اور افراد کو تطبیق کرنے میں ذیادہ دقت کرنے اور باریک بینی سے کام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ عصر ظہور میں عراق، ایران، جزیرہ عربستان، شامات اور یمن اہم خطوں میں سے ہیں۔ یہ پانچ ممالک ظھور کے واقعات میں براہ راست اہم کردار ایفاء کریں گے
عصر ظہور میں بلاد شام
شام یا شامات تاریخی اور حدیثی منابع میں صرف سوریہ فعلی کو نہیں کہاجاتا بلکہ اس میں لبنان، یعنی جبل لبنان ، اردن اور فلسطین سب شامات میں آتے ہیں شام کا یہ خطہ بہت ہی اہمیت کا حامل خطہ ہے یہاں پر پیامبران الهی آئے ہیں آسمانی کتابیں نازل ہوئی ہیں۔ تیں بڑے ادیان الہی اسی سر زمین پر وجود میں آئے ہیں حضرت عیسی مسیح کی ولادت بھی اسی سر زمین پر ہوئی ہے اور آسمان پر آپ کی عروج اسی سر زمین سے ہوئی ہے اور آپ کی رجعت بھی اسی سر زمین پر ہوگی اس کے زیر زمین خزینے اور گنجینے بھی بہت ہیں ۔عصر ظہور میں شام کے واقعات، اس کی شخصیات کے بارے میں اور اس کے متعلق احادیث بھی بہت ذیادہ ہیں ان میں سب سے اہم اساسی واقعہ خروج سفیانی ہے، جو بنی امیہ ابو سفیان کی نسل سے ہوگا، وہ شام میں موجود اپنے دشمنوں کی قلع قمع کرےگا اور پورے شام پر کنٹرول حاصل کرےگا اس کے بعد وہ فوری طور پر اپنے لشکر کو عراق پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے بھیج دےگا اور اس کا ایک لشکر حجاز میں اس کی حکومت کی مدد کرنے اور امام مہدی علیہ السلام کے قیام کو روکنے کے لئے ہوگا۔ یہ لشکر مکہ جاتے ہوئے مدینہ کے قریب وادی بیداء میں زمیں میں دھسےگا۔اس کا یہ پورا لشکر زمین نگل لے گی ۔









آپ کا تبصرہ