تحریر: مولانا سکندر علی ناصری
حوزہ نیوز ایجنسی I قرقیسیا ایک چھوٹا شہر ہے۔یہ نھر خابور کو نھر فرات سے ملانے کی جگہ پر واقع ہے۔آج کل قرقیسیا وہی کھنڈرات ہیں جو دیر الزور سوریہ کےقریب ہے یہ جغرافیای اعتبار سے سوری اور ترکی سرحد پر ہے۔ اس کا نام قرقیسیہ بن طهمورث بادشاہ کے نام پر رکھا گیا۔ بڑی تعداد میں روایات ہیں کہ آخری زمان میں اس شھر میں ایک بڑی جنگ ہوگی ۔ کچھ روایات میں اس کو خروج سفیانی کے ساتھ جوڑ دیا ہے ان روایات میں اس جنگ عظیم کی وجہ کا یوں ذکر ہوا ہے کہ دریائے فرات میں گنجینہ کا انکشاف ہے ۔اسی گنجینہ پر سفیانی اور ترکی میں اختلاف ہوگا۔ کتاب کافی میں امام باقر علیہ السلام نے میسر سے مخاطب ہو کر فرمایا آئے میسر!تمہارا اور قرقیسیا کے درمیان میں کتنا فاصلہ ہے؟
ميسر نے کہا نزدیک، ساحل فرات پر واقع ہے۔ امام نے فرمایا ہوشیار!وہاں ایک ایسا واقعہ رونما ہوگا اس طرح کا واقعہ آسمان اور زمین کی تخلیق سے اب تک رونما نہیں ہوا ہے۔اور جب تک آسماں اور زمین باقی ہیں ایسا واقعہ پھر سے رونما نہیں ہوگا۔ یہ شھر پرندوں کے لیے دسترخوان بنےگا۔جنگلی درندے اور آسمانی پرندے اس دسترخوان سے پیٹ بھر کے کھائیں گے۔وہاں قيس کی ھلاکت ہوگی۔امام صادق علیہ السلام کی روایت کے مطابق مآدبہ کی جگہ پر مائدہ بھی آیا ہے یعنی امام صادق علیہ السلام نے فرمایا قرقیسیا میں اللہ کا مائدہ ہے جب آسمان سے سورج طلوع کرئےگا۔ تو کوئی آسمان سے پکارے گا: آئے آسمانی پرندو! آئے زمینی درندو! ان ظالم ستمگروں کے گوشت پر جپھٹ پڑھو اور پیٹ بھر کے کھاؤ۔
رسول سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرات سوکھ جائےگا، وہاں سے سونا اور چاندی ظاہر ہوں گے۔اور ہر نو میں سے سات ادمی مارے جائیں گے۔ اگر تم اسے دیکھوگے تو اس کے قریب نہ جائیں۔ چوتھا فتنہ اٹھارہ سال تک چلتا رہے گا، پھر جب یہ فتنہ ختم ہو جائے گا تو فرات خشک ہوچکا ہوگا، سونے کا ایک پہاڑ ظاہر ہوگا، لوگ اس پر ٹوٹ پڑیں گے، اور ہر نو میں سے سات افراد مارے جائیں گے۔کچھ روایات میں ہے کہ ساٹھ ہزار سے ایک لاکھ تک افراد مارے جائیں گے۔چوتھا فتنہ سے مراد کونسا فتنہ ہے نہیں معلوم چونکہ فتنے کی روایات ایک دوسرے سے متعارض ہیں۔لیکن امام کے ظہور سے متصل، فتنہ وہی چوتھا ہوگا محقق علی کورانی عاملی کے نزدیک وہ نصوص جن میں جنگ عظیم کا ذکر ہے، روایات مرسلہ ہیں۔ اگر ان کے اسناد درست ہونے کو مانیں تو اس کنز سے دو چیزیں مراد ہوسکتی ہیں
1۔۔اسے مراد تیل کے چشمے ہوں۔
2۔۔ یا سونا اور چاندی کے خزینے ہوں۔
اس بڑی جنگ میں سفیانی کے مد مقابل میں ترکی ہوگا۔اس ترکی سے مراد ترکی فعلی ہو سکتاہے یا روس بھی ہوسکتا ہے کہ جسے امم ترک کہا جاتا ہے۔ کچھ روایات میں ہے خروج سفیانی سے پہلے اھل ترک ایک جزیرہ پر پڑاؤ ڈالیں گے۔جسے جزیرہ ربیعہ یا ديار بکر کہا ہے،جو قرقیسیا کی نزدیک ہے یا اسے موصل کے قریب جو علاقہ اس نام سے ہے وہ مراد ہے۔ البتہ روم اس وقت رملہ میں پڑاؤ ڈالیں گے اس رملہ سے شاید رملہ فلسطین ہو یا رملہ مصر ہو۔ اور موصوف محقق کے نزدیک امام مھدی علیہ السلام کا پہلا علم ترکی کے خلاف لڑنے کے لئے بلند ہوگا۔









آپ کا تبصرہ