تحریر: سکندر علی ناصری
ظھور اور ترکی
عصر ظہور سے مربوط احادیث میں جس ترک کا ذکر ہے اس سے ترکیه فعلی مقصود نہیں بلکہ فعلی ترکی کے ساتھ روس اور اس کے اطراف میں جو اقوام ہیں یعنی اروپایی شرقی کے لوگ بھی مقصود ہیں ، امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ "آذربائیجان سے ایسی آگ بھڑک اٹھے گی جس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکےگاجب ایسا ہوا تو اپنے گھروں میں چھپ کے رہو۔ جب تک ہم حرکت نہ کریں اپنی جگہ سے مت ہلو۔ جب ہمارا محرک حرکت کرے تو اس کی طرف ڈورو۔ اگرچہ سینہ کے بل کیوں نہ ہو۔ خدا کی قسم، گویا میں ا پنی آنکھوں سے اس کو، رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان لوگوں سے نئی کتاب پر بیعت لیتے ہوئے، دیکھ رہا ہوں"۔
محقق علی کورانی عاملی نے کہا ہے کہ آگ سے مراد واقعی آگ ہو سکتی ہے۔یا ممکن ہے مجازی یعنی جنگ اور فتنہ ہو سکتا ہے۔ یزید بن جابر اور دیگر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" ترک کے دو خروج ہیں،ایک وہ آذربائیجان پر چھڑائی کریں گے اور اس کو تباہ کر دیںگے، دوسرا وہ دریائے فرات کی طرف خروج کریں گے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ترک کے لوگ دو خروج کریں گے ایک آذربائیجان کو تباہ کر نے اور دوسرا جزیرے پر نکلیں گے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"قیامت اس وقت تک برپا نہیں ہوگی جب تک کہ فرات سونا کا پہاڑ ظاہر نہ کرے جب ایسا ہوگا تو اس وقت لوگ ایک دوسرے سے لڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے لہٰذا، ہر سو میں سے ننانوے افراد مارے جائیں گے ان میں سے ہر ایک کا یہ خیال ہوگا میں ہی شاید بچ جاوں"۔ عراق سے جنگ کرنے کا سفیانی اصلی ھدف اس ملک پر قبضہ حاصل کرنا ہے اور ایرانی افواج کا راستہ روکنا ہے جو امام زمان علیہ السلام کے ظہور کا پیش خیمہ کے طور پر عراق سے، شام پھر شام سے گزرتا ہوا قدس تک جاےگا۔ لیکن عراق جاتے ہوئے راستہ میں ایک عجیب واقعہ پیش انے کی وجہ سے قرقیسیا میں ایک بڑی جنگ ہوگی اور یہ جنگ دریائے فرات میں یا دریائے فرات کے قریب ایک خزینے کے انکشاف کی وجہ سے ہوگی ۔ہر فریق کے لوگ اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں گے جس کے نتیجے میں ان کے درمیان جنگ کی آگ بھڑک اٹھےگی اور ایک لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جائیں گے اور ان میں سے کسی کو بھی کامیابی حاصل نہیں ہوگی اور اس خزینے تک کوئی نہیں پہنچےگا۔ بلکہ آخر میں ہر کوئی اس سے دستبردار ہوگا۔
عبداللہ بن زبیر نے امام علی علیہ السلام سے جو روایت نقل کی ہے اس میں قرقیسیا میں دو عبداللہ اور ان کے لشکر کی موجودگی کا بھی ذکر ہے: عبداللہ عبداللہ کا تعاقب کرےگا یہاں تک کہ ان کے سپاہی دریا کے کنارے قرقیسیا میں ایک دوسرے سے روبہ رو ہوں گے۔ امام علی علیہ السلام کی روایات میں سفیانی کے خروج سے پہلے کے مراحل اور واقعات کا ذکر یوں ہے:جب شام میں دو نیزے آپس میں ٹکرائیں گے تو سمجھیں خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ظاہر ہوگی ۔ عرض کیا یا امیر المومنین وہ نشانی کیا ہے؟ آپ نے کہا، "وہ ایک لرزہ ہے جو شام میں ظاہر ہو گا اور وہاں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہو جائیں گے۔ خدا اس کو مومنین کے لیے رحمت اور کافروں کے لیے عذاب قرار دے گا۔اگر ایسا ہوا تو[أَصْحَابِ الْبَرَاذِینِ الشُّهْبِ الْمَحْذُوفَةِ]یعنی پیش رفتہ اسلحوں پرسواروں اور پیلے رنگ کےجھنڈے والے یورپ کی طرف سے آییں گے(موصوف محقق نے اسے ٹینک مرادلیاہے) یہاں تک شام میں داخل ہوں گے۔ اس کے بعد دمشق کے ایک گاؤں میں،جس کا نام حرستا ہے، سورج گرہن ہوگا۔ جب ایسا ہوا تو جگر خوارکا بیٹا وادی یابس سے نکلے گا یہاں تک کہ وہ دمشق کے منبر پر چھڑےگا۔ اگر ایسا ہوا تو امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا انتظار کریں۔
جابر نے امام باقر سے روایت کی ہے جس کی شہرت حدیث تمھید کے نام سے ہے، اور اس میں شام کےتمام واقعات ذکر ہیں، جس میں ایک خاص معین وقت کے فاصلہ میں ترتیب وار واقعات کا ذکر ہے، بنیادی اہم تیں شرائط ظہور کے وقوع پذیر ہونے کے لیے درج ذیل ہیں: اور یہ کہنا ضروری ہے کہ سفیانی کے خروج سے پہلے شام کے واقعات کا ایک جملے میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ دمشق کی سمت سے فتح کی خبر آئی گی اور شام کے ایک گاؤ ں جابیہ میں گرہن لگے گا۔ اور اھل ترک پیدل چلیں گے ، اھل روم اس کے پیچھے ھنگامہ آرائی کریں گے۔اور اھل ترک چلتے ہوئے جزیرے تک پہنچ جائیں گے، اور رومی گوریلا پیش قدمی کرتے ہوئے رملہ پہنچیں گے ۔ اسی سال، اے جابر سر زمین عرب میں اختلافات بہت بڑہیں گے لہذا ظہور سے پہلے تباہ ہونے والی سر زمین شام کی سرزمین ہے۔









آپ کا تبصرہ