حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا منظور علی نقوی امروہوی نے حرم مطہر حضرت معصومہ قم سلام اللہ علیہا کے ابو طالب ہال میں منعقدہ ایصالِ ثواب کی مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کی رو سے الله اپنے بندوں کو وہم و گمان کے اندھیروں سے نکال کر حیات یقینی عطا کرتا ہے۔
انہوں نے سُورۃ الحدید کی آیت نمبر 9 هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَىٰ عَبْدِهِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ وَإِنَّ اللَّهَ بِكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ. (وہی ہے جو اپنے بندے پر روشن آیات نازل فرماتا ہے، تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آئے اور بے شک اللہ تم پر مہربان اور رحم والا ہے۔) کی روشنی میں کہا کہ یہ آیت دراصل انسانی روح کی بیداری اور تبدیلی کا اعلان ہے۔
مولانا منظور علی نقوی نے کہا کہ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو “ظلمات” یعنی وہم، شک، گمان اور غفلت کے اندھیروں سے نکال کر “نورِ یقین” کی روشنی عطا کرتا ہے۔یہی وہ کیفیت ہے جسے کہا جا سکتا ہے کہ"خداوندِ متعال وہم و گمان کی زندگی سے نکال کر حیاتِ یقینی عطا کرتا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ انسان جب صرف ظاہری آنکھوں سے دیکھتا ہے تو اسے دنیا کے دھوکے، وسوسے اور فریب نظر آتے ہیں،لیکن جب اللہ تعالیٰ اس پر اپنی رحمت کا دروازہ کھولتا ہے تو اس کے دل کی آنکھ روشن ہو جاتی ہے۔پھر وہ دیکھنے لگتا ہے کہ ہر شے کے پیچھے ایک قدرتِ کاملہ کار فرما ہے۔
مولانا منظور علی نقوی نے مزید کہا کہ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں وہم ختم ہوتا ہے، یقین جنم لیتا ہے اور بندے کی زندگی “حیاتِ یقینی” میں تبدیل ہو جاتی ہے۔قرآن کہتا ہے کہ اللہ نے “آیاتِ بیّنات” نازل فرمائیں، یعنی ایسی واضح نشانیوں والی آیات جو انسان کو حقیقت دکھا دیں، شک کو یقین میں اور اندھیرے کو روشنی میں بدل دیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا دراصل دو گروہوں میں منقسم ہے: ایک وہ لوگ جو گمان کے سائے میں جیتے ہیں اور دوسرے وہ جو یقین کی روشنی میں زندگی گزارتے ہیں۔ پہلے گروہ کے لوگ ہمیشہ وسوسوں اور بے چینیوں میں رہتے ہیں —“کیا ہوگا؟ کیوں ہوا؟ میرے ساتھ ہی کیوں؟ لیکن دوسرا گروہ، یعنی اہلِ یقین، اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں اور ہر حال میں مطمئن رہتے ہیں،کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ “جو کچھ اللہ کرتا ہے بہتر کرتا ہے۔
مولانا منظور علی نقوی نے انبیائے کرام کی زندگیوں کو مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت یوسفؑ — یہ سب اہلِ یقین تھے۔ان کی زندگیاں ہمیں بتاتی ہیں کہ جب دل اللہ سے جڑ جائے تو کوئی آگ جلا نہیں سکتی، کوئی قید توڑ نہیں سکتی اور کوئی دریا راستہ روک نہیں سکتا۔
انہوں نے کہا کہ یہی نورِ ایمان، یہی حیاتِ یقینی اور یہی روحانی بیداری ہے جس کی طرف سورۃ الحدید کی یہ آیت ہمیں بلاتی ہے۔
مولانا نقوی نے مزید کہا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں بھی اطمینان پیدا ہو تو ہمیں قرآن کے ذریعے اپنی روح کو منور کرنا ہوگا۔تلاوتِ قرآن دراصل بیداریِ روح کا سفر ہے۔جب بندہ قرآن کے پیغام سے جڑتا ہے تو اللہ خود اسے وہم و گمان کے اندھیروں سے نکال کر نورِ یقین کی زندگی عطا فرماتا ہے۔









آپ کا تبصرہ