اتوار 12 اکتوبر 2025 - 15:56
خاندانی ماہرین: نئی نسل، نئی تربیت کی متقاضی ہے

حوزہ/ آج ہم نئی نسل کا سامنا کر رہے ہیں جو اب نوعمری میں قدم رکھ چکے ہیں، اور ان کی تربیت کے طریقے پر توجہ دینا، معاشرے کے مستقبل کو تشکیل دے سکتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پچھلے چند برسوں میں اس بات پر بارہا زور دیا گیا ہے کہ ٹیکنالوجی کے زمانے کے نوجوان اور بچوں کے ساتھ تعامل کے لیے اندازِ تربیت میں فرق ہونا چاہیے۔ لیکن آج ہم ایک اور نئی نسل کا سامنا کر رہے ہیں، جو اب نوعمری کے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ ان کی صحیح تربیت پر توجہ، مستقبل کے معاشرے کی سمت متعین کر سکتی ہے۔

یہ نسل تیز رفتار ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ اور مسلسل تبدیلیوں کے دور میں پروان چڑھی ہے۔ سوشل میڈیا اور چیٹ بوٹس کے ذریعے یہ دنیا کے مختلف مسائل سے واقف ہوتی ہے۔ اسی لیے اس نسل کی تربیت کے لیے ایک نیا، لچکدار اور تخلیقی نقطہ نظر ضروری ہے۔

اسی پس منظر میں، خاندانی اور ثقافتی ماہرین سے گفتگو کی گئی تاکہ نئی نسل کی تربیت میں موجود فرق اور خصوصیات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔

والدین کو نئی مہارتوں کی ضرورت ہے

زینب رحیمی تالارپشتی نے کہا:نئی نسل کے بچوں کے والدین ہونے کے لیے نہ صرف ایک مختلف رویّے کی ضرورت ہے بلکہ نئی مہارتوں، معلومات اور تعاملی انداز کی بھی ضرورت ہے۔ جو والدین مختلف نسلوں کے بچے رکھتے ہیں، وہ اس فرق کو بخوبی محسوس کرتے ہیں۔

انہوں نے امام علی علیہ السلام کے فرمان (نہج البلاغہ، حکمت 175) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: «لَا تُکْرِهُوا أَوْلادَکُمْ عَلَی آدَابِکُمْ فَإِنَّهُمْ مَخْلُوقُونَ لِزَمَانٍ غَیْرِ زَمَانِکُمْ “اپنے بچوں کو اپنے طریقوں پر مجبور نہ کرو، کیونکہ وہ ایسے زمانے کے لیے پیدا ہوئے ہیں جو تمہارے زمانے سے مختلف ہے۔”

یہ ارشاد دراصل اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ ہر نسل کا زمانہ، ماحول اور ضرورتیں الگ ہوتی ہیں۔ لہٰذا تربیت کا انداز بھی بدلنا ضروری ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ نئی نسل میں ذہانت کی بلندی، جرات، معلومات تک وسیع رسائی، ذاتی رائے پر اصرار، غیر دلچسپ امور سے گریز، اور رسمی روایات سے بےنیازی جیسی خصوصیات نمایاں ہیں۔

رحیمی کے مطابق والدین کو بھی اس نسل کے تقاضوں کے مطابق خود کو بدلنا ہوگا:

جدید معلومات سے آگاہی

میڈیا لٹریسی (سوشل میڈیا کو سمجھنے کی صلاحیت) اس نسل کی زبان، سوچ، دلچسپیوں اور ذہنی دنیامیں واقفیت، نرمی کے ساتھ مؤثر تعلق قائم کرنے کی مہارت، اسلامی و ایرانی طرزِ زندگی کا تحفظ، سننے کی صلاحیت اور غیر تنقیدی رویہ

"چَیٹ بوٹس" کے دور میں تربیت

زهرا مهرجویی نے کہا کہ حالیہ نسلیں، پچھلی نسلوں سے بالکل مختلف ہیں۔ سوشل میڈیا کی وسعت اور مصنوعی ذہانت (AI) کے میدان میں پیش رفت نے زندگی کے انداز کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

انہوں نے کہا: "اس نسل سے مؤثر رابطے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے خود ان کے حالات اور دنیا کو سمجھیں، ان کی جگہ خود کو تصور کریں، اور ان کے رویوں کو تباہ کن نہ سمجھیں۔ ان کا اندازِ گفتگو یا بظاہر بےتفاوتی کوئی المیہ نہیں، بلکہ ان کے زمانے کی خصوصیت ہے۔"

استادِ حوزہ و جامعہ نے مزید کہا: "ایک اچھی ماں بننے کے لیے ضروری ہے کہ عورت خودسازی کرے۔ اگر والدین خود صبر، درگزر اور تحمل جیسے اوصاف نہیں رکھتے تو وہ اپنے بچوں میں یہ صفات پیدا نہیں کر سکتے۔"

انہوں نے زور دیا کہ: "روحانی توجہ اور خدا و اہل‌بیتؑ سے مدد طلب کرنا نہایت ضروری ہے، کیونکہ محض جدید تربیتی طریقے انسان کو کامیاب نہیں بنا سکتے۔ خدا کی مدد کے بغیر انسان اکیلا تمام پہلوؤں کو سنبھال نہیں سکتا۔"

نئی نسل میں بیٹیوں کی تربیت

ثقافتی شعبے کی ایک سرگرم خاتون نے کہا: بیٹیوں کے ساتھ مسلسل اور بامعنی رابطہ رکھنا، انہیں اعتمادِ نفس، اپنے آپ پر یقین اور اپنی شخصیت کو قبول کرنے کا احساس دلانا والدین، خاص طور پر باپ کے لیے ایک اہم تربیتی ضرورت ہے۔

انہوں نے یاد دلایا: "بیٹیاں زمین پر فرشتوں کی مانند ہیں، چاہے وہ کسی بھی دہائی یا نسل سے ہوں۔ وہ پاکیزہ فطرت رکھتی ہیں، لہٰذا والدین کو اس پاکیزگی کو محفوظ رکھنے کے لیے ماحول فراہم کرنا چاہیے۔ جو بیٹی اپنی قدر پہچانتی ہے، وہ کبھی خود کو معمولی یا کمزور ظاہر نہیں کرتی۔ خود اعتماد لڑکی اپنے وقار پر سمجھوتہ نہیں کرتی۔"

خلاصہ:

آج کی نسل صرف ٹیکنالوجی میں نہیں، سوچنے اور محسوس کرنے کے انداز میں بھی مختلف ہے۔ اس لیے والدین کو ماضی کی روایتی تربیت سے آگے بڑھ کر محبت، سمجھ، علم اور معنویت کے امتزاج سے کام لینا ہوگا، تاکہ وہ نئی نسل کو جدید دنیا میں بھی ایمان، اخلاق اور وقار کے ساتھ پروان چڑھا سکیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha