حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، درگاہ حضرت عباس رستم نگر لکھنؤ میں انجمن ہائے ماتمی کی جانب سے ایک احتجاجی اجلاس کا انعقاد کیا گیا جس میں علماء کرام، ذاکرین اور مختلف انجمنوں کے نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اجلاس میں امامِ جمعہ لکھنؤ اور مجلس علمائے ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید کلبِ جواد نقوی پر ہوئے حملے اور وقف عباس باغ کی کربلا سمیت دیگر اوقافی املاک پر ناجائز تعمیرات کے خلاف سخت احتجاج کیا گیا۔
شرکاء نے مطالبہ کیا کہ پولیس فوری طور پر مولانا پر حملے کے مجرموں کو گرفتار کرے اور عباس باغ ٹرسٹ کی اراضی پر غیر قانونی قبضوں کو ختم کیا جائے۔ مقررین نے کہا کہ اگر مجرموں کے خلاف کارروائی نہ ہوئی تو آئندہ عباس باغ میں ہونے والے احتجاج کی نوعیت تبدیل کردی جائے گی۔
مولانا تسنیم مہدی زید پوری نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اوقاف کے بعض متولیوں نے اب تک اس حملے کی مذمت تک نہیں کی، حالانکہ مولانا کلبِ جواد نے وقف کے تحفظ کے لیے ہمیشہ قربانیاں دی ہیں۔
مولانا مشاہد عالم رضوی نے کہا کہ رہبری دیانت، استقلال اور قربانی کی متقاضی ہے اور یہ تمام صفات مولانا کلبِ جواد میں موجود ہیں۔
مولانا غلام سرور اور مولانا سرتاج حیدر زیدی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ حملہ آوروں کو فوری گرفتار کرکے مولانا کو اضافی سکیورٹی فراہم کی جائے۔
مولانا محمد میاں عابدی قمی نے کہا کہ یہ صرف ایک شخص پر حملہ نہیں بلکہ ایک شخصیت اور تحریک پر حملہ ہے، جب کہ مولانا اکرم ندوی نے اتحادِ امت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مولانا کلب جواد کی قیادت میں قوم کو مزید متحد ہونا چاہیے۔
شیعہ وقف بورڈ کے رکن مولانا رضا حسین رضوی نے انتباہ دیا کہ اگر پولیس نے کارروائی نہ کی تو اگلا احتجاجی جلسہ عباس باغ میں بھرپور انداز میں ہوگا۔
اجلاس کے اختتام پر مولانا کلبِ جواد نقوی نے کہا کہ علما و ذاکرین کو وقف تحریک کا حصہ بننا چاہیے اور جو افراد اس جدوجہد سے کنارہ کش ہیں، انہیں قوم خود مسترد کرے۔
اجلاس کے ناظم میثم رضوی نے کہا کہ اگر آئندہ اجلاس میں تمام متولی، علماء اور ذاکرین شریک نہ ہوئے تو ان کے بائیکاٹ کا اعلان کیا جائے گا۔
اس موقع پر مولانا نثار احمد زین پوری، مولانا حیدر عباس رضوی، مولانا فیروز حسین، مولانا محمد موسیٰ، مولانا اصغر مہدی، مولانا شاہنواز حیدر، مولانا ثقلین نقوی اور متعدد علمائے کرام بھی موجود تھے۔









آپ کا تبصرہ