حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ قم کے استاد حجت الاسلام والمسلمین روح اللہ نمازی نے کہا کہ قرآن کریم حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی عظیم شخصیت کو پہچاننے کا اہم ذریعہ ہے، کیونکہ سورتوں اور آیات میں ان کی رفعتِ مقام کے واضح اشارے موجود ہیں۔
حوزہ علمیہ قم کے استاد حجت الاسلام والمسلمین روح اللہ نمازی نے ساری میں حوزہ نیوز ایجنسی کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حضرت فاطمہؑ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ کو جاری رکھنے والی ہستی ہیں، اور جو علوم پیغمبرؐ کے پاس تھے وہی علوم حضرت زہراؑ کو منتقل ہوئے۔ ان کے بقول، ’’یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کے وصال کے بعد بھی حضرت زہراؑ کا رابطہ فرشتۂ وحی جبرائیل امین سے قائم رہا، اور یہی ان کی عظمت کا مظہر ہے۔‘‘
استاد حوزہ علمیہ قم نے واضح کیا کہ اگرچہ قرآن کریم میں اہل بیتؑ کے اسمائے مبارکہ صراحت سے ذکر نہیں ہوئے، لیکن یہ اس حکمت کے تحت تھا کہ قرآن میں تحریف نہ ہو اور امیرالمؤمنینؑ سے متعلق آیات محفوظ رہیں۔
انہوں نے کہا کہ سورہ کوثر حضرت زہراؑ کی شان میں نازل ہوا، جب عاص بن وائل نے رسول اکرمؐ کو “ابتر” کہا تو خدا نے جواب دیا “إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ” — یعنی اللہ نے فاطمہؑ کو عطا فرمایا جو خیرِ کثیر ہیں۔ حجت الاسلام نمازی کے مطابق، یہی آیت اس بات کی دلیل ہے کہ نسلِ نبویؐ حضرت زہراؑ سے آگے بڑھی اور مخالفین خود بے نام و نشان ہوگئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سورہ ہل اتی (سورہ انسان) بھی حضرت فاطمہؑ اور اہل بیتؑ کے ایثار و اخلاص کی عظیم مثال ہے، جہاں قرآن ان کے طعام دینے کے واقعے کو یوں بیان کرتا ہے: «وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا...» ’’وہ خدا کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں اور کسی بدلے یا شکریے کی خواہش نہیں رکھتے۔‘‘
حجت الاسلام نمازی نے کہا کہ آیہ مباہلہ بھی حضرت زہراؑ کی عظمت کو نمایاں کرتی ہے۔ جب نصارائے نجران سے مباہلہ کا وقت آیا تو رسول خداؐ اپنے ہمراہ صرف علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ اور حسینؑ کو لے کر آئے۔ ’’یہ منظر دیکھ کر نصاریٰ لرز اٹھے اور مباہلہ سے انکار کرتے ہوئے صلح پر راضی ہوگئے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ رسول خداؐ اپنے اہل بیتؑ کو حق کی گواہی کے طور پر پیش کر رہے تھے۔‘‘
آخر میں انہوں نے کہا کہ قرآن کریم حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شناخت کا سب سے معتبر منبع ہے، کیونکہ اس کی آیات میں ان کی سیرت، ایثار، مقام اور روحانی عظمت کے آثار نمایاں طور پر موجود ہیں۔









آپ کا تبصرہ