پیر 27 اکتوبر 2025 - 06:46
بیداری اور معرفت مراقبہ کی محتاج ہے / انسان کو اپنے ہر معاملے میں محتاط رہنا چاہیے

حوزہ/ حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے کہا: جو شخص اپنے دل کو غفلت سے، اپنی نفس کو شہوت سے، اپنے نظری و فکری عقل کو علمی جہالت سے اور اپنے عملی عقل کو عملی جہالت سے بچائے، وہ بیدار دل افراد کی جماعت میں داخل ہو جاتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے اپنی گفتگو میں مراقبہ کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: شیطان ہمیشہ غفلت کے لمحات میں اضافہ اور انہیں آپس میں جوڑنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ ہر غفلت کے لمحے کو نئی اور زیادہ گہری غفلت کی بنیاد بنا سکے۔ اس لیے راہ حق کا مسافر جو اپنے بلند و برتر مقاصد تک پہنچنا چاہتا ہے، اسے ہمیشہ ہر معاملے میں محتاط رہنا چاہیے کہ وہ صراط مستقیم سے خارج نہ ہو اور کوشش کرے کہ شیطان کے نفوذ کا کوئی موقع فراہم نہ کرے۔ یعنی وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات جمال و جلال اور اس کی نعمتوں کو یاد رکھے نیز موت، قیامت، قبر، جنت، جہنم، الٰہی حساب و کتاب میں حاضر ہونے کو یاد کرتا رہے تاکہ وہ پھسلنے نہ پائے اور اس کی یہ پھسلن دوسری پھسلن کا باعث نہ بنے: «الَّذِینَ یَذْکُرُونَ اللَّهَ قِیَامًا وَقُعُودًا وَعَلَیٰ جُنُوبِهِمْ» یعنی "وہ لوگ جو اللہ کو کھڑے، بیٹھے اور اپنے پہلو بل لیٹے یاد کرتے ہیں" (سورہ آل عمران آیت 191) اور یہی "مراقبہ" ہے جسے علامہ طباطبائی (رحمۃ اللہ علیہ) جیسے بزرگان سعادت کا بیج کہتے تھے۔

صَمتْ و جوع و سَهَر و ذکری به دوام

ناتمامان جهان را بکند کار تمام

یعنی خاموشی، بھوک، بیداری اور ہمیشہ کی یاد

دنیا کے ناتمام لوگوں کا کام پورا کر دیتی ہے۔(کلیات قاسم انوار)

راہ خدا کے مسافر کو پورا دن بلکہ ہر وقت اس شخص کی طرح رہنا چاہیے جو امتحانی جلسے کی نگرانی کر رہا ہو اور طلباء کو نقل کرنے سے روکنے کے لیے گردن اٹھا اٹھا کر دیکھتا ہو، اسے اپنی نفسانی خواہشات پر نظر رکھنی چاہیے اور ہر وقت اس کی نگرانی کرنی چاہیے اور اپنے ہر قول و فعل کو ظاہر ہونے سے پہلے اپنے اعلیٰ مقصد (یعنی اللہ کی رضا اور قرب حاصل کرنا) کے ساتھ پرکھنا چاہیے اور اگر وہ اس کے مطابق نہ ہو تو اس عمل کو ترک کر دینا چاہیے۔ اسے اپنی نفسانی خواہشات کی اس طرح نگرانی کرنی چاہیے اور اس پر سختی کرنی چاہیے کہ کوئی بھی قول یا فعل اس چناؤ اور پاکیزگی کے عمل سے گزرے بغیر صادر نہ ہونے دے۔

بیداری اور معرفت مراقبہ کی محتاج ہے اور جو شخص اپنے دل کو غفلت سے، اپنی نفس کو شہوت سے، اپنے نظری عقل کو علمی جہالت سے اور اپنے عملی عقل کو عملی جہالت سے بچائے، وہ بیدار دل افراد کی جماعت میں داخل ہو جاتا ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha