حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ کے سربراہ آیت اللہ علی رضا اعرافی نے صوبہ قم کے مدارسِ علمیہ کے مدیران اور معاونینِ تحقیق کے ساتھ مدرسہ معصومیہ قم کے کانفرنس ہال میں منعقدہ ایک اجلاس میں خطاب کے دوران کہا: ماہِ جمادی کے گزرنے کے بعد ہم ماہِ رجب، شعبان اور رمضان جیسے بابرکت مہینوں میں داخل ہو رہے ہیں جو عبادتی اور معنوی تقویم میں نہایت ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: یہ تینوں مہینے انسان کی معنوی، اخلاقی اور روحانی نشوونما کے لیے ہیں اور ان ایام میں پھیلی ہوئی الٰہی نعمتیں قربِ الٰہی، خود شناسی اور روحانی بلندی کے قیمتی مواقع فراہم کرتی ہیں۔
آیت اللہ اعرافی نے کہا: ان الٰہی انوار سے استفادہ صرف ذاتی رشد کے لیے کافی نہیں۔ ہم اور آپ صرف اپنی ذات کے لیے اس وسیع الٰہی دسترخوان سے فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ دوسروں کی معنوی، اخلاقی اور روحانی ترقی کے لیے رہنمائی اور دستگیری کی ذمہ داری بھی ہمارے کاندھوں پر ہے۔
سربراہ حوزہ علمیہ نے مزید کہا: مدیران، معاونین اور حوزاتِ علمیہ سے وابستہ افراد ایک دوہری اور پیغمبرانہ نوعیت کی رسالت کے حامل ہیں جو دوسروں کی رہنمائی، ہدایت اور قیادت سے مربوط ہے اور یہی امر ان کی ذمہ داری کو زیادہ سنگین اور فریضے کو زیادہ دشوار بناتا ہے۔

انہوں نے اپنی گفتگو کے ایک اور حصے میں حوزاتِ علمیہ میں تحقیق کے راہنما افراد کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: جو عزیزان تحقیق کی رہنمائی کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں وہ ایک مشکل اور کثیر تقاضوں والے کام سے دوچار ہیں اور جب تحقیق دین، اسلامی معارف اور آیاتِ الٰہی کے مقاصد کی خدمت میں آتی ہے تو یہ ذمہ داری مزید سنگین اور حساس ہو جاتی ہے۔
آیت اللہ اعرافی نے کہا: حوزوی تحقیقات اور اسلامی علوم میں پیش کیا جانے والا ہر قول بالآخر کسی نہ کسی طور خداوندِ متعال اور شارعِ مقدس کی طرف نسبت رکھتا ہے یا انسانی سعادت اور الٰہی مقاصد کے فروغ کے لیے اسی بنیاد پر پیش کیا جاتا ہے اور یہی نکتہ استاد، محقق، طالب علم اور بالخصوص تحقیق کے راہبر و رہنماؤں کی ذمہ داری کو بے حد بڑھا دیتا ہے۔
سربراہ حوزہ علمیہ نے کہا: اس راہ میں کام آسان نہیں بلکہ گہری محنت اور دقیق منصوبہ بندی کا تقاضا کرتا ہے۔ سطحی اور محدود سوچ سے گریز کرنا چاہیے اور رسمی تشریفات کو اصل کام نہ سمجھا جائے بلکہ صلاحیتوں کی دریافت، محققین کی ہدایت اور علمی نظاموں کی ترقی پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔









آپ کا تبصرہ