حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مدیر حوزہ علمیہ ایران آیت اللہ علی رضا اعرافی نے مجتمع امین قم میں منعقدہ اساتذہ کے خصوصی اجلاس میں حوزہ علمیہ قم کی تاسیس کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر رہبر معظم انقلاب اسلامی کے تاریخی پیغام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: حوزہ علمیہ قم کی تاسیس کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر مقام معظم رهبری کے پیغام کے پہلے مخاطب خود حوزہ کے مدیران اور اساتید ہیں۔
انہوں نے کہا: حوزہ علمیہ کو تاریخی شعور کی بحالی میں پانچ اہم تاریخی محاذوں پر کام کرنا ہو گا: مغربی تہذیب کا تنقیدی مطالعہ، دنیائے اسلام کی حالیہ تاریخ، ایران کی 150 سالہ تاریخ، حوزہ و علماء کی تاریخ اور انقلاب اسلامی کی تاریخ اور عظیم جدوجہد۔
انہوں نے کہا: انقلاب اسلامی محض ایک واقعہ نہیں بلکہ شیعہ تاریخ کا نقطہ عروج ہے جس نے پورے عالمی نظام کے حساب و کتاب کو بدل دیا۔

آیت اللہ اعرافی نے مزید کہا: آج کی دنیا اسلام اور انقلاب اسلامی کے پیغام کی محتاج ہے اور ہم جتنا بھی کام کریں وہ ناکافی ہے۔ یہ محض ایک نظری یا ثبوتی ضرورت نہیں بلکہ ایک حقیقی مطالبہ اور اشتیاق ہے اور یہ حوزہ علمیہ قم اور بالخصوص جامعۃ المصطفیٰ کی سب سے اہم ذمہ داری ہے۔
انہوں نے کہا: مغربی تہذیب کے مادہ پرستانہ فلسفے کا علمی محاسبہ ضروری ہے۔ حوزہ علمیہ کو اس سلسلہ میں اسلامی تہذیبی ماڈل پیش کرنا ہوگا چونکہ اسلام ایک مکمل فکری نظام کی حیثیت رکھتا ہے۔
حوزہ علمیہ کے مدیر نے حوزہ علمیہ کی عالمی سطح پر ذمہ داری اور فعالیت کو بیان کرتے ہوئے کہا: آج الحمد للہ جامعۃ المصطفیٰ کے 50سے 70 ہزار فارغ التحصیل افراد دنیا بھر میں علمی و تبلیغی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا: عالم اسلام کو اہل بیت علیہم السلام کے معارف کی اشد ضرورت ہے۔ نئی نسل کی تربیت انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔

آیت اللہ اعرافی نے اساتذہ سے اپیل کرتے ہوئے کہا: بین الاقوامی سطح پر فکری رہنمائی کرنے والے علما تیار کریں۔ اسی طرح ان میں جدید دور کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کریں۔
انہوں نے مزید کہا: شیعہ علماء نے تاریخ میں بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں لیکن مجموعی طور پر اس کا سفر ارتقا اور ترقی و پیشرفت کا رہا ہے۔ دورِ تقیہ سے لے کر عاشورا کے بعد کی تحریکوں تک، ہم نے اسلامِ ناب کی بلندی کی طرف رواں دواں حرکت کا مشاہدہ کیا ہے۔
حوزہ علمیہ کے مدیر نے حوزہ و تشیع کے تاریخی نقاط عطف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا: شیخ مفید (رہ) اور شیخ طوسی (رہ) کے دورِ بغداد سے لے کر خواجہ نصرالدین طوسی اور علامہ حلی کے عصرِ مغل تک، اہل بیت علیہم السلام کے علمی و ثقافتی دھارے نے عظیم انقلابات برپا کیے یہاں تک کہ خونخوار مغل حکومت کو ایک ثقافتی اور علمی ادارے میں تبدیل کر دیا۔
انہوں نے اس راہ کو جاری رکھنے میں جامعۃ المصطفی کے کردار پر زور دیتے ہوئے کہا: معارفِ اہل بیت علیہم السلام کی ترویج کے لیے دنیا کے افقوں کو کھولنا جامعۃ المصطفی کی بنیادی ذمہ داری ہے اور یہ تاریخی رویہ حوزہ علمیہ میں تبدیلیوں کا نیا باب کھولنے کا باعث بننا چاہیے۔










آپ کا تبصرہ