پیر 29 دسمبر 2025 - 18:47
ولادتِ امام محمد تقیؑ مایوسی میں امید کی کرن

حوزہ/ امام محمد تقیؑ کی ولادت اور امامت کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ جب کبھی منافقین اور ریا کاروں سے واسطہ پڑ جائے تو ہمیں ہمت سے کام لیتے ہوئے انتہائی ہوشیاری کے ساتھ مومنین کو اس سے باخبر کرنا اور انہیں دشمن کے ساتھ مقابلے کے لیے تیار اور امادہ کرنا ہے۔

تحریر: محمد شعیب سبحانی

حوزہ نیوز ایجنسی | انسانیت کی تاریخ کے سینے میں بعض ایسے لمحات محفوظ ہیں کہ جب تاریکی حالات انسان کو مایوسی کے گہرے کنویں میں دھکیل دیتی ہے اور جب ظلم و جبر اپنے عروج پر ہوتے ہیں اور حق کے چراغ بجھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تو ایسے پُر آشوب دور میں خداوند عالم اپنی سنت کے مطابق امید کی ایک کرن عطا کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے یہ کرن نہ صرف دلوں کو زندہ کرتی ہے بلکہ تاریخ کا رخ بھی موڑ دیتی ہے ایسی ہی ایک کرن سنہ ۱۹۵ھ ماہ رجب کی دسویں تاریخ کو امام علی رضا علیہ السّلام کے خانہ اقدس میں پروردگار کے حکم سے نکلتی ہے اس وقت ایک ایسا دور تھا جس میں دوست و احباب مایوسی کے شکار ہو چکے تھے کیونکہ اس وقت امام رضا علیہ السّلام کا کوئی وارث نہیں تھا اور آپ علیہ السّلام کی عمر مبارک کے تقریباً ۴۷ سال گزر چکے تھے لوگ آپ کی امامت میں شک کرنے لگے آپ کی اولاد نہیں ہے دشمن خوش ہوتے تھے اور آپ کو طعنے دیتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دم بریدہ قرار دیا ہے بعض اتنی گستاخی پر اتر آئے تھے کہ آپ علیہ السّلام کو خط لکھ کر کہنے لگے کہ آپ بے اولاد ہیں آپ کی امامت مشکوک ہے بس ایسے پر آشوب دور میں یہ امید کی کرن جناب سبیکہ جنھیں امام علیہ السّلام خیزران اور ریحانہ کے نام سے یاد فرماتے تھے کے بطن مبارک سے نکلتی ہے جو کہ خدائی سنت کا روشن مظہر ہے

کمسنی میں امامت اور لوگوں کی مایوسی

امام رضا علیہ السّلام کی شہادت ۲۰۳ ھ میں ہوئی ہے اسی وجہ سے امام محمد تقی علیہ السّلام کو ۷ یا ۸ سال کی عمر میں امامت ملی امامت کا آغاز ایک ایسے زمانے میں ہوا جب بنی عباس کی سیاسی سازشیں اپنے عروج پر تھیں شیعہ معاشرہ شدید فکری دباؤ علمی تشکیک اور قیادت کے بحران سے دوچار تھا امام رضا کی شہادت کے بعد سب سے بڑا سوال یہی تھا کہ ایک کم سن امام امت کی قیادت کیسے کریں گے مخالفین اس موقع کو غنیمت سمجھ کر امامت کے الٰہی تصور کو کمزور کرنا چاہتے تھے یہ وہ لمحہ تھا جب مایوسی دلوں پر سایہ فگن ہو رہی تھی جب شیعہ حلقوں میں بھی اضطراب پایا جاتا تھا اور دشمن اس انتظار میں تھے کہ یہ سلسلہ خود بخود ختم ہو جائے لیکن خدا نے دشمنوں کو مایوس کر دیا یقیناً امام تقی علیہ السّلام کی عمر مبارک تمام آئمہ کرام میں سب سے کم رہی اور آپ نے دنیا صرف ۲۵ سال گزارے لیکن کمالات وفضائل اور نشر علوم واحکام میں کسی طرح کی کمی یا کوتاہی نہیں ہوئی

علمی کمالات اور دشمن کی مایوسی

کمسنی میں ہی امام کے اتنے علمی کمالات وفضائل تھے کہ اس کمسنی میں ایک جلسے میں ہی ۳۰. ۳۰ سوالات کے جوابات دیتے تھے امام پہلے شخص تھے جنہوں نے آزادانہ بحث و مباحثے کا آغاز کیا مامون کی موجودگی میں مختلف مذاہب کے علماء اور دانشوروں کے ساتھ علم کلام کے دقیق اور مشکل موضوعات پر دلیل اور استدلال کے ساتھ بحث کرتے ہوئے اپنی برتری ثابت کر دیا مام محمد تقی کی کم عمری کے باوجود آپؑ کا علم حلم تقویٰ اور بصیرت اس حقیقت کا اعلان تھا کہ امامت عمر کی محتاج نہیں بلکہ خدا کے انتخاب کی مرہون منت ہے

عباسی دربار میں ہونے والے علمی مناظرے خصوصاً یحییٰ بن اکثم کے ساتھ مباحثے نے ثابت کر دیا کہ امامؑ کا علم کسی مدرسے یا استاد کا محتاج نہیں بلکہ وہی علم لدنی ہے جو خدا اپنے حجتوں کو عطا کرتا ہے یہ لمحہ صرف ایک علمی فتح نہ تھا بلکہ دشمنوں کی مایوسی اور محبوں کی امید کی وہ کرن تھی جس نے شیعہ فکر کو نئی زندگی بخشی

کم عمری میں قیادت نوجوانوں کے لیے پیغام

امام محمد تقیؑ کی ولادت اور امامت کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ جب کبھی منافقین اور ریا کاروں سے واسطہ پڑ جائے تو ہمیں ہمت سے کام لیتے ہوئے انتہائی ہوشیاری کے ساتھ مومنین کو اس سے باخبر کرنا اور انہیں دشمن کے ساتھ مقابلے کے لیے تیار اور امادہ کرنا ہے اگر دشمن کھلے عام اپنی دشمنی کا اظہار کرے اور ریاکاری کا مظاہرہ نہ کرے تو پھر اس سے نمٹنا اسان ہوتا ہے لیکن اگر کبھی دشمن مامون عباسی کی طرح اپنے چہرے پر تقدس کا نقاب ڈال کر اسلام کی باتیں کرنے لگے تو پھر لوگوں کے لیے ایسے دشمن کی پہچان مشکل ہو جاتی ہے تاریخ گواہ ہے کہ طاقتور لوگوں کی یہی کوشش رہی ہے کہ جب وہ سامنے ا کر مقابلہ کرنے سے عاجز ہو تو پھر ریاکاری اور منافقت سے کام لیتے ہیں حضرت امام محمد تقی نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ مامون کے چہرے سے ریاکاری اور منافقت کے پردے کو اتار کر پھینک دیا جائے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے قران کی اصطلاح میں منافق کافر سے بدتر ہے کیونکہ کافر یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اسلام کا دشمن ہے لیکن منافق زبان پر کچھ اور دل میں کچھ اور رکھتا ہے اس کے علاؤہ امام علیہ السّلام کی کم عمری میں قیادت سے یہ درس ملتا ہے کی کم عمری کمزوری نہیں اگر مقصد الٰہی ہو تو یہی عمر قیادت کا استعارہ بن جاتی ہے آج کا نوجوان جب اپنے حالات معاشرتی دباؤ اور فکری انتشار کو دیکھ کر مایوس ہوتا ہے تو امام تقیؑ کی سیرت اسے یہ درس دیتی ہے کہ خدا جسے چاہے کم وسائل اور کم عمر میں بھی عظیم ذمہ داری عطا فرما دیتا ہے اور ساتھ کامیابی بھی عطا فرماتا ہے یہ ولادت ہمیں بتاتی ہے کہ امید کا چراغ ہمیشہ جلتا رہتا ہے ولادت امام محمد تقی علیہ السلام ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ جب حالات اندھیروں میں ڈوب جائیں جب حق کے علمبردار کمزور دکھائی دیں اور جب مستقبل غیر واضح ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ خدا امید کی نئی کرن عطا کرنے والا ہے آج بھی اگر مومنین مایوسی کا شکار ہے تو اسے امام تقی کی ولادت سے یہ سبق لینا چاہیے کہ امید کبھی ختم نہیں ہونی چاہیے بس امام زمانہ علیہ السّلام کے ظہور کا وقت بھی ایک دن امید کی کرن بن کر آئے گا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha