۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
مولانا یونس حیدر رضوی ماہلی

حوزہ/ الہ آباد میں ایک ایسا بھی متدین قریہ ہے جہاں مسلسل ۴۵ دنوں سے روزانہ بغیر کسی رکاوٹ کے ان شہداء کے ایصال ثواب کے لئے اور اپنی عقیدت کے اظہار کے لئے مجالس کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے صوبۂ اترپردیش، الہ آباد کے مختلف مقامات اور متعدد قریوں میں شہید قاسم سلیمانی، شہید ابو مہدی المہندس اور ان کے ہمراہ جاں بحق ہونے والے دیگر شہدائے راہ حق کا چہلم بڑے جوش وخروش اور عقیدتوں سے منایا گیا۔

رپورٹ کے مطابق الہ آباد میں ایک ایسا بھی متدین قریہ ہے جہاں مسلسل ۴۵ دنوں سے روزانہ بغیر کسی رکاوٹ کے ان شہداء کے ایصال ثواب کے لئے اور اپنی عقیدت کے اظہار کے لئے مجالس کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔

قابل تعریف ہیں موضع انڈھرہ ضلع کوشامبی کے مومنین کرام جنہوں نے مسلسل ۴۵ دنوں سے مجالس کرکے امام عصرعج کی خدمت میں تعزیت پیش کرنے کا بہترین ثبوت پیش کیا ۔
موضع انڈھرہ ضلع کوشامبی میں مجلس چہلم کا انعقاد کیا گیا جس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا ۔ تلاوت کے بعد شعرائے اہل بیت علیہم السلام جناب معصوم انڈھروی، جناب ذکی انڈھروی، جناب سہیل سریاوی، جناب محمود انڈھری اور جناب ظفر انڈھروی نے شہیدوں کی یاد میں منظوم خراج عقیدت پیش کئے۔ 
جو بھی دنیا میں غلام حیدرکرارؑ ہے

حق پہ مرنے کے لئے ہر وقت وہ تیار ہے
(جناب محمود انڈھری)
شرف ایسا کہاں ملتا ہے ہر اک کو زمانے میں
جو اپنے ساتھ میں لے کر گئے قاسم سلیمانی
یہ امریکہ بھی کتنا نا سمجھ ہے دیکھ لے دنیا
سمجھ رکھا ہے جس نے مر گئے قاسم سلیمانی
(جناب ظفر انڈھروی)

اس مجلس چہلم کو بلبل باغ حضرت زہراؑ، شیریں بیاں قاری و استاد قرآن حجۃ الاسلام و المسلمین جناب مولانا سید یونس حیدر رضوی ماہلی (استاد حوزہ علمیہ جامعۃ العباسؑ و مدرسۂ زینبیہؑ الہ آباد و مدیر ادارۂ التنزیل شعبۂ اترپردیش) نے خطاب فرمایا۔ جس میں انہوں نے شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کے کردار اور جہانی افکار پر روشنی ڈالتے ہوئے تمام شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ آپ نے مزید بیان کیا کہ " وہ قاسم سلیمانی جس کے نام سے دنیا نا آشنا تھی آخر کون سی ایسی وجہ تھی کہ راتوں رات شہد قاسم دنیائے شیعت کے دلوں کی دھڑکن بن گئے؟ آپ نے بیان کیا کہ یہ امام وقت سے محبت، الفت ، اطاعت، اخوت، نصرت اور مستحکم دوستی کی علامت ہے یقینا امام وقت کا دل اپنے اس جاں نثار ساتھی کے فراق میں رنجیدہ و مغموم ہوا ہے جس کا اثر پوری دنیا میں نظر آرہا ہے۔جب امام وقت کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے ہیں تو امام سے محبت کرنے والا ہر دل اور ہر شیٔ مغموم ہو جاتی ہے ۔"شہید ابو مہدی المہندس کا یہ جملہ کہ "کاش مرنے سے پہلے شہادت کے درجے پر فائز ہو جاتا" کتنا با معنی ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ شہادت ، موت نہیں بلکہ زندگی کا نام ہےلہٰذا علی والے حقیقی زندگی کی تلاش میں شہادت کو گلے سے لگانے میں دیر نہیں لگاتے۔ موصف نے دردناک آواز اور انداز میں مولا ابو الفضل العباسؑ کے مصائب کو بیان کیا جس سے ہر سامع کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب امنڈ پڑا، مومنین نے انہیں آنسوؤں سے امام وقت عج کی خدمت عالیہ میں تعزیت پیش کی۔
نظامت کے فرائض شاعر اہل بیتؑ جناب ظفرؔ انڈھروی نے انجام دئے، مجلس کے بعد الہ آباد کی مخصوص رسوم کے اعتبار سے نذر و فاتحہ کا اہتمام ہوا جس میں کثیر تعداد میں مومنین نے شرکت فرمائی۔بعدہ مومنین کے طعام کا انتظام بھی قابل ستائش رہا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .