حوزہ نیوز ایجنسی| 1 ـ قالَ الاْمامُ علىّ بن أبی طالِب أمیرُ الْمُؤْمِنینَ (عَلَیْهِ السلام) : إغْتَنِمُوا الدُّعاءَ عِنْدَ خَمْسَةِ مَواطِنَ: عِنْدَ قِرائَةِ الْقُرْآنِ، وَ عِنْدَ الاْذانِ، وَ عِنْدَ نُزُولِ الْغَیْثِ، وَ عِنْدَ الْتِقاءِ الصَفَّیْنِ لِلشَّهادَةِ، وَ عِنْدَ دَعْوَةِ الْمَظْلُومِ، فَاِنَّهُ لَیْسَ لَها حِجابٌ دوُنَ الْعَرْشِ.(1)
اپنی دعا اور مرادیں مانگنے کے لئے پانچ مواقع کو غنیمت سمجھو تلاوت قرآن کے وقت 'اذان کے وقت 'بارش کے وقت 'خدا کی راہ میں جنگ اور جہاد کےوقت 'اورجس وقت مظلوم آہ نالہ کر رہا ہو ان مواقع پر دعا قبول ہونے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی.
2ـ قالَ(علیه السلام): اَلْعِلْمُ وِراثَةٌ کَریمَةٌ، وَ الاْدَبُ حُلَلٌ حِسانٌ، وَ الْفِکْرَةُ مِرآةٌ صافِیَةٌ، وَالاْعْتِذارُ مُنْذِرٌ ناصِحٌ، وَ کَفى بِکَ أَدَباً تَرْکُکَ ما کَرِهْتَهُ مِنْ غَیْرِکَ.(2)
علم ایک بیش قیمت اور اچھی میراث ہے 'ادب بہترین زیور ہے 'غور وفکر ایک صاف آئینہ ہے 'معذرت خواہی ایک ڈرانے والا ناصح ہے تمھارے باادب ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ جسے تم دوسروں سے ناپسند کرتے ہو اسے خودبھی ترک کردو .
3ـ قالَ(علیه السلام): اَلـْحَقُّ جَدیدٌ وَ إنْ طالَتِ الاْیّامُ، وَ الْباطِلُ مَخْذُولٌ وَ إنْ نَصَرَهُ أقْوامٌ.( 3)
حقّ و حقیقت تمام حالات میں نئی اور تازی ہوتی ہے چاہےجتنی مدت گذر چکی ہو اور باطل ہمیشہ ذلیل و خوار ہوتا ہے چاہے جتنے لوگ اس کی حمایت کرنے والے ہوں .
4ـ قالَ(علیه السلام): اَلدُّنْیا تُطْلَبُ لِثَلاثَةِ أشْیاء: اَلْغِنى، وَ الْعِزِّ، وَ الرّاحَةِ، فَمَنْ زَهِدَ فیها عَزَّ، وَ مَنْ قَنَعَ إسْتَغْنى، وَ مَنْ قَلَّ سَعْیُه ُإسْتَراحَ.(4)
دنیا اور اس کے مال و دولت کو تین چیزوں کے لئے حاصل کیا جاتا ہے بے نیازی ' عزت ' آرام وسکون لہذا جو دنیا میں زہد اختیار کرتا ہے وہ عزت پاتا ہے جو قناعت کرتا ہے وہ بے نیاز رہتا ہے اور جو حصول دنیا کے لئے کم زحمت برداشت کرتا ہے وہ آرام سے رہتا ہے.
5ـ قالَ(علیه السلام): لَوْ لاَ الدّینُ وَ التُّقى، لَکُنْتُ أدْهَى
الْعَرَبِ.(5)
اگر دین کی پابندی اور تقوی کا خیال نہ ہو تا تو میں عرب کا سب سے بڑا سیاست باز ہوتا
6ـ قالَ(علیه السلام): اَلْمُلُوکُ حُکّامٌ عَلَى النّاسِ، وَ الْعِلْمُ حاکِمٌ عَلَیْهِمْ، وَ حَسْبُکَ مِنَ الْعِلْمِ أنْ تَخْشَى اللّهَ، وَ حَسْبُکَ مِنَ الْجَهْلِ أنْ تَعْجِبَ بِعِلْمِکَ.(6)
بادشاہ لوگوں پر حاکم ہوتے ہیں اور علم ان پر حکومت کرتا ہے تمھارے صاحب علم ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ تم اللہ سے ڈرو اور تمھاری جہالت کے لئے یہی کافی ہے کہ تمھیں اپنے علم پر ناز ہو.
7ـ قالَ(علیه السلام): ما مِنْ یَوْم یَمُرُّ عَلَى ابْنِ آدَم إلاّ قالَ لَهُ ذلِکَ الْیَوْمُ: یَابْنَ آدَم أنَا یَوُمٌ جَدیدٌ وَ أناَ عَلَیْکَ شَهیدٌ. فَقُلْ فیَّ خَیْراً، وَ اعْمَلْ فیَّ خَیْرَاً، أشْهَدُ لَکَ بِهِ فِى الْقِیامَةِ، فَإنَّکَ لَنْ تَرانى بَعْدَهُ أبَداً.(7)
انسان پر کوئی بھی دن ایسا نہیں گزرتا جب وہ دن اس انسان سے یہ نہ کہے کہ میں نیادن ہوں اور میں تمھارے اوپر شاہداور گواہ ہوں لہذااس دن میں اچھی باتیں بولو نیک عمل کرو تو میں قیامت میں تمھارے لیے گواہی دوں گااور آج کے بعد تم مجھے کبھی نہیں دیکھو گے.
8ـ قالَ(علیه السلام): فِى الْمَرَضِ یُصیبُ الصَبیَّ، کَفّارَةٌ لِوالِدَیْهِ.(8)
بچے کی بیماری اس کے والدین کے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے .
9ـ قالَ(علیه السلام): الزَّبیبُ یَشُدُّ الْقَلْبِ، وَیُذْهِبُ بِالْمَرَضِ، وَ یُطْفِىءُ الْحَرارَةَ، وَ یُطیِّبُ النَّفْسَ.(9)
منقیٰ دل کو مضبوط کرتا ہے ' بیماری کو دور کرتا ہے گرمی کو کم کرتا ہے اورسانس کوخوشبداراور پاکیزہ بناتا ہے .
10ـ قالَ(علیه السلام): أطْعِمُوا صِبْیانَکُمُ الرُّمانَ، فَإنَّهُ اَسْرَعُ لاِلْسِنَتِهِمْ.(10)
اپنے بچوں کو انار کھلاؤ اس سے ان کی زبان جلدی کھلتی ہے .
11ـ قالَ(علیه السلام): أطْرِقُوا أهالیکُمْ فى کُلِّ لَیْلَةِ جُمْعَة بِشَیْء مِنَ الْفاکِهَةِ، کَیْ یَفْرَحُوا بِالْجُمْعَةِ.(11)
ہر شب جمعہ کچھ پھل یا مٹھائی لیکر اپنے اہل خانہ کے پاس آیا کرو تا کہ وہ جمعہ کی آمد سے خوش ہوں .
12ـ قالَ(علیه السلام): کُلُوا ما یَسْقُطُ مِنَ الْخوانِ فَإنَّهُ شِفاءٌ مِنْ کُلِّ داء بِإذْنِ اللّه ِعَزَّوَجَلَّ، لِمَنْ اَرادَ أنْ یَسْتَشْفِیَ بِهِ.(12)
کھانے کے برتن یا دستر خوان سے جو گرجائے اسے کھا لیا کرو اسلیے کہ اگر کوئی اس کے ذریعہ شفا چاہے تو خدا کے اذن سے یہ اس کے لئے بہترین شفا ہے
13ـ قالَ(علیه السلام):لا ینبغى للعبد ان یثق بخصلتین: العافیة و الغنى، بَیْنا تَراهُ مُعافاً اِذْ سَقُمَ، وَ بَیْنا تَراهُ غنیّاً إذِ افْتَقَرَ.(13)
بندوں کےلئے یہ مناسب نہیں کہ دو حالتوں پر بھروسہ کریں صحت وعافیت اور مالداری وتوانگری اس لئے کہ ممکن ہے دیکھتے ہی دیکھتے کوئی بیماری آجائے اور صحت و سلامتی سے ہاتھ دھونا پڑجائے یا اچانک غریبی اور تنگ دستی آجائے اور مال ودولت ہاتھ سے نکل جائے .
14ـ قالَ(علیه السلام): لِلْمُرائى ثَلاثُ عَلامات: یَکْسِلُ إذا کانَ وَحْدَهُ، وَ یَنْشطُ إذاکانَ فِى النّاسِ، وَ یَزیدُ فِى الْعَمَلِ إذا أُثْنِىَ عَلَیْهِ، وَ یَنْقُصُ إذا ذُمَّ.(14)
ریا کار کی تین نشانیاں ہیں جب اکیلا ہو تو سستی اور کاہلی سے کام لیتا ہے اورجب لوگوں کے درمیان ہو تو بہت تازہ دم اور فعال دکھائی دیتا ہے 'جب تعریف کی جائے توبہت کام کرتا ہے ' جب مذمت کا سامنا ہو تو اس کے عمل میں کمی ہو جاتی ہے
15ـ قالَ(علیه السلام): اَوْحَى اللّهُ تَبارَکَ وَ تَعالى إلى نَبیٍّ مِنَ الاْنْبیاءِ: قُلْ لِقَوْمِکَ لا یَلْبِسُوا لِباسَ أعْدائى، وَ لا یَطْعَمُوا مَطاعِمَ أعْدائى، وَ لا یَتَشَکَّلُوا بِمَشاکِلِ أعْدائى، فَیَکُونُوا أعْدائى.(15)
خدا وند عالم نے اپنے ایک نبی کو وحی فرمائی کہ آپ اپنی قوم سے کہ دیں کہ میرے دشمنوں کا لباس نہ پہنا کریں میرے دشمنوں کے کھانے نہ کھایا کریں اور میرے دشمنوں جیسی وضع وقطع نہ بنائیں ورنہ وہ میرے دشمن شمار ہوں گے.
16ـ قالَ(علیه السلام): اَلْعُقُولُ أئِمَّةُ الأفْکارِ، وَ الاْفْکارُ أئِمَّةُ الْقُلُوبِ، وَ الْقُلُوبُ أئِمَّةُ الْحَواسِّ، وَ الْحَواسُّ أئِمَّةُ الاْعْضاءِ.(16)
عقلیں فکروں کی امام اور رہنما ہیں 'فکریں دلوں کے امام اور رہنما ہیں 'دل احساسات کے لئے امام ہیں اور احساسات اعضاء وجوارح کے لئے امام اور رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں.
17ـ قالَ(علیه السلام): تَفَضَّلْ عَلى مَنْ شِئْتَ فَأنْتَ أمیرُهُ، وَ اسْتَغِْنِ عَمَّنْ شِئْتَ فَأنْتَ نَظیرُهُ، وَ افْتَقِرْ إلى مَنْ شِئْتَ فَأنْتَ أسیرُهُ.(17)
جس کسی کے ساتھ چاہو احسان اور نیکی کرو ایسا کرنے سے تم اس کے حاکم اور سردار بن جاؤ گے ' جس کسی سے چاہو بے نیازی کا رویہ اختیار کرو اس طرح اس کے مثل و نظیر کہلاؤ گے جس کسی کے سامنے چاہو ہاتھ پھیلاکر اپنی غربت اور فقر کا رونا رو اس طرح تم اس کے اسیر بن جاؤگے .
18ـ قالَ(علیه السلام): أعَزُّ الْعِزِّ الْعِلْمُ، لاِنَّ بِهِ مَعْرِفَةُ الْمَعادِ وَ الْمَعاشِ، وَ أذَلُّ الذُّلِّ الْجَهْلُ، لاِنَّ صاحِبَهُ أصَمُّ، أبْکَمٌ، أعْمى، حَیْرانٌ.(18)
سب سے بڑی عزت علم ہے اس لئے کہ اس کے ذریعہ روز قیامت اور امور حیات کی معرفت حاصل ہوتی ہے ' سب سے بڑی ذلت جہالت ہے اس لئے کہ جاہل گونگا 'بہرہ ' اندھا اور حیران و سر گرداں ر ہتا ہے .
19ـ قالَ(علیه السلام): جُلُوسُ ساعَة عِنْدَ الْعُلَماءِ أحَبُّ إلَى اللّهِ مِنْ عِبادَةِ ألْفِ سَنَة، وَ النَّظَرُ إلَى الْعالِمِ أحَبُّ إلَى اللّهِ مِنْ إعْتِکافِ سَنَة فى بَیْتِ اللّهِ، وَ زیارَةُ الْعُلَماءِ أحَبُّ إلَى اللّهِ تَعالى مِنْ سَبْعینَ طَوافاً حَوْلَ الْبَیْتِ، وَ أفْضَلُ مِنْ سَبْعینَ حَجَّة وَ عُمْرَة مَبْرُورَةمَقْبُولَة، وَ رَفَعَ اللّهُ تَعالى لَهُ سَبْعینَ دَرَجَةً، وَ أنْزَلَ اللّهُ عَلَیْهِ الرَّحْمَةَ، وَ شَهِدَتْ لَهُ الْمَلائِکَةُ: أنَّ الْجَنَّةَ وَ جَبَتْ لَهُ.(19)
علماء کے پاس ایک گھنٹہ بیٹھنا خدا وند عالم کو ایک ہزار سال کی عبادت سے زیادہ پسند ہے 'عالم کے چہرہ کو دیکھنا خانۂ خدا میں ایک سال اعتکاف کرنے سے زیادہ پسند ہے علماء کے دیدار کے لئے جانا خانۂ کعبہ کے گرد ستر مرتبہ طواف کرنے سے زیادہ پسند اور ستر مقبول بارگاہ حج و عمرہ بجا لانےسے زیادہ بہتر ہے خداند عالم ایسا کرنے والے کے ستر درجہ بلند کرتا ہے اس پر اپنی رحمت نازل کرتا ہے اور اس کے لئے ملائکہ گواہی دیتے ہیں کہ کہ اس پر جنت واجب ہے .
20ـ قالَ(علیه السلام): یَا ابْنَ آدَم، لا تَحْمِلْ هَمَّ یَوْمِکَ الَّذى لَمْ یَأتِکَ عَلى یَوْمِکَ الَّذى أنْتَ فیهِ، فَإنْ یَکُنْ بَقِیَ مِنْ أجَلِکَ، فَإنَّ اللّهَ فیهِ یَرْزُقُکَ.(20)
اے آدم کے فرزند جو دن ابھی نہیں آیا اس کے ھم و غم کا بوجھ آج پر نہ ڈالو اگر تمھاری زندگی کے دن باقی ہوں گے تو خداوندعالم ان میں بھی تمھیں رزق وروزی دے گا .
21ـ قالَ(علیه السلام): قَدْرُ الرَّجُلِ عَلى قَدْرِهِمَّتِهِ، وَ شُجاعَتُهُ عَلى قَدْرِ نَفَقَتِهِ، وَ صِداقَتُهُ عَلى قَدْرِ مُرُوَّتِهِ، وَ عِفَّتُهُ عَلى قَدْرِ غِیْرَتِهِ.(21)
انسان کی قدر ومنزلت اس کی ہمت اور عزم و حوصلہ کے برابر ہو تی ہے اس کی شجا عت و بہادری اس کے راہ خدا میں خرچ کرنے کے کی مقدار کے برابر ہو تی ہے اس کی صداقت اس کی مرؤت اور جواں مردی کے برابر اور اس کی عفت و پاک دامنی اس کی غیرت و حمیت کے برابر ہوتی ہے
22ـ قالَ(علیه السلام): مَنْ شَرِبَ مِنْ سُؤْرِ أخیهِ تَبَرُّکاً بِهِ، خَلَقَ اللّهُ بَیْنَهُما مَلِکاً یَسْتَغْفِرُ لَهُما حَتّى تَقُومَ السّاعَةُ.(22)
اگرکوئی مومن بھائی تبرک کےطوراپنے مومن بھائی کا جھوٹا پی لیتا ہے تو خدا وند عالم ان دو نوں کے لئے ایک ملک کو پیداکرتا ہےجو قیا مت تک ان دونوں کے لئے استغفار کرتا ہے .
23ـ قالَ(علیه السلام): لا خَیْرَ فِى الدُّنْیا إلاّ لِرَجُلَیْنِ: رَجَلٌ یَزْدادُ فى کُلِّ یَوْم إحْساناً، وَ رَجُلٌ یَتَدارَکُ ذَنْبَهُ بِالتَّوْبَةِ، وَ أنّى لَهُ بِالتَّوْبَةِ، وَالله لَوْسَجَدَ حَتّى یَنْقَطِعَ عُنُقُهُ ما قَبِلَ اللهُ مِنْهُ إلاّ بِوِلایَتِنا أهْلِ الْبَیْتِ.(23)
دنیا میں خیر و سعادت کسی کے لئے نہیں ہے سوائے دو لو گوں کے ایک وہ شخص جو ہر روز اپنی نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے اور دوسر ا وہ شخص جو توبہ کے ذریعہ اپنے گناہوں کی بیماری کا علاج کرتا ہے اور توبہ کے لئے بھی اگر کوئی شخص اتنے سجدے کرے کہ اس کے سروتن میں جدائی ہوجائےاس کےباوجودخداوند عالم اس کی توبہ اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک توبہ کرنےوالاہماری ولایت کااقرار کرنےوالا نہ ہو .
24ـ قالَ(علیه السلام): عَجِبْتُ لاِبْنِ آدَم، أوَّلُه ُنُطْفَةٌ، وَ آخِرُهُ جیفَةٌ، وَ هُوَ قائِمٌ بَیْنَهُما وِعاءٌ لِلْغائِطِ، ثُمَّ یَتَکَبَّرُ.(24)
مجھےتعجب ہوتا ہے اس شخص پر جس کا آغاز نطفہ اور جس کا انجام مردار ہے اور وہ ان دونوں کے درمیان گندگی کو اٹھا پھرتا ہے اس کے با وجود غرور و تکبر کا شکار رہتا ہے .
25ـ قالَ(علیه السلام): إیّاکُمْ وَ الدَّیْن، فَإنَّهُ هَمٌّ بِاللَّیْلِ وَ ذُلٌّ بِالنَّهارِ.(25)
قرض لینے سے بچو اس لئے کہ قرض لینا راتوں میں بے چینی اور دن میں ذلت و دسوائی کا باعث ہوتا ہے .
26ـ قالَ(علیه السلام): إنَّ الْعالِمَ الْکاتِمَ عِلْمَهُ یُبْعَثُ أنْتَنَ أهْلِ الْقِیامَةِ، تَلْعَنُهُ کُلُّ دابَّة مِنْ دَوابِّ الاْرْضِ الصِّغارِ.(26)
جو عالم اپنے علم کو چھپائے وہ قیامت میں سب سے زیا دہ بد بو دار صورت میں اٹھایا جائے گا یہاں تک کہ اس پر ہر چھوٹی سے چھوٹی مخلوق لعنت کرے گی.
27ـ قالَ(علیه السلام): یا کُمَیْلُ، قُلِ الْحَقَّ عَلى کُلِّ حال، وَوادِدِ الْمُتَّقینَ، وَاهْجُرِ الفاسِقینَ، وَجانِبِ المُنافِقینَ، وَلاتُصاحِبِ الخائِنینَ.(27)
اے کمیل ہر حال میں حق بولو صاحبان تقویٰ سے محبت کرو فاسقوں سے دور رہو منافقوں سے کنارہ کشی رکھو اور خیانت کرنے والوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا نہ رکھو
28ـ قالَ(علیه السلام): فى وَصیَّتِهِ لِلْحَسَنِ (علیه السلام): سَلْ عَنِ الرَّفیقِ قَبْلَ الطَّریقِ، وَعَنِ الْجارِ قَبْلَ الدّارِ.(28)
حضرت علی علیہ السلام نے اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کو وصیت کرتے ہؤے ادشاد فرمایا: راستے سے پہلے ہم سفر کے بارے میں معلوم کر لیا کو اور گھر لینے سے پہلے پڑوسیوں کے بارے میں معلومات حاصل کر لیا کرو
29ـ قالَ(علیه السلام): اِعْجابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِهِ دَلیلٌ عَلى ضَعْفِ عَقْلِهِ.(29)
انسان کا اپنے اوپر فخر کرنا اس کی کم عقلی کی نشانی ہے
30ـ قالَ(علیه السلام): أیُّهَا النّاسُ، إِیّاکُمْ وُحُبَّ الدُّنْیا، فَإِنَّها رَأْسُ کُلِّ خَطیئَة، وَبابُ کُلِّ بَلیَّة، وَداعى کُلِّ رَزِیَّة.(30)
اے لوگو دنیا کی محبت سے بچو اس لئے کہ وہ ہر غلطی اور گناہ کی جڑ ' ہر بلا و آزمائش کا دروازہ اور ہر مصیبت کی آماجگاہ ہے .
31ـ قالَ(علیه السلام): السُّکْرُ أرْبَعُ السُّکْراتِ: سُکْرُ الشَّرابِ، وَسُکْرُ الْمالِ، وَسُکْرُ النَّوْمِ، وَسُکْرُ الْمُلْکِ.(31)
نشہ چار طرح کا ہرتا ہے شراب کانشہ 'مال ودولت کانشہ' نیند کانشہ اور حکومتی عہدہ و منصب کا نشہ.
32ـ قالَ(علیه السلام): أللِّسانُ سَبُعٌ إِنْ خُلِّیَعَنْهُ عَقَرَ.(32)
زبان ایک درندہ ہے جو اگر آزاد رہے تو پھاڑ کھائےگا .
33ـ قالَ(علیه السلام): یَوْمُ الْمَظْلُومِ عَلَى الظّالِمِ أشَدُّ مِنْ یَوْمِ الظّالِمِ عَلَى الْمَظْلُومِ.(33)
ظالم کے خلاف مظلوم کا دن مظلوم کے خلاف ظالم کے دن سے زیادہ سخت ہوتا ہے .
34ـ قالَ(علیه السلام): فِى الْقُرْآنِ نَبَأُ ما قَبْلَکُمْ، وَخَبَرُ ما بَعْدَکُمْ، وَحُکْمُ ما بَیْنِکُمْ.(34)
قرآن مجید میں تم سے پہلے کی خبریں تمھارے بعد کے حالات اور تمھارے موجودہ دور کے احکام پائے جاتے ہیں .
35ـ قالَ(علیه السلام): نَزَلَ الْقُرْآنُ أثْلاثاً، ثُلْثٌ فینا وَفى عَدُوِّنا، وَثُلْثٌ سُنَنٌ وَ أمْثالٌ،وَثُلْثٌ فَرائِض وَأحْکامٌ.(35)
قرآن مجید تین حصوں میں نازل ہوا ایک حصہ ہم اہل بیت ع کے فضایل و کمالات اور ہمارے دشمنوں کی مذمت کے بارے میں ہے دوسرے حصے میں سنتوں اور ضرب الامثال کا تذکرہ ہے اور تیسرے حصہ میں احکام اور فرائض بیان ہوئے ہیں
36ـ قالَ(علیه السلام): ألْمُؤْمِنُ نَفْسُهُ مِنْهُ فى تَعَب، وَالنّاسُ مِنْهُ فى راحَة.(36)
مومن خود تکلیف میں رہتا ہے لیکن لوگوں کو اس کے وجود سے آرام و سکون نصیب ہو تا ہے .
37ـ قالَ(علیه السلام): کَتَبَ اللّهُ الْجِهادَ عَلَى الرِّجالِ وَالنِّساءِ، فَجِهادُ الرَّجُلِ بَذْلُ مالِهِ وَنَفْسِهِ حَتّى یُقْتَلَ فى سَبیلِ اللّه، وَجِهادُ الْمَرْئَةِ أنْ تَصْبِرَ عَلى ماتَرى مِنْ أذى زَوْجِها وَغِیْرَتِهِ.(37)
خدا وند عالم نے مردوں اور عورتوں دونوں پر جہاد فرض کیا مرد کا جہاد جان و مال کی قربانی سے ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کی راہ میں شہید ہوجائے اور عورت کا جہاد اس کے شوہر اور اس کی غیرت کی بنا پردر پیش مشکلات پرصبر کے ذریعہ ہوتا ہے .
38ـ قالَ(علیه السلام): فى تَقَلُّبِ الاْحْوالِ عُلِمَ جَواهِرُ الرِّجالِ.(38)
حالات کےبدلنےسےلوگوں کی حقیقت سامنےآجاتی ہے .
39ـ قالَ(علیه السلام): إنّ الْیَوْمَ عَمَلٌ وَلاحِسابَ، وَغَداً حِسابٌ وَ لا عَمَل.(39)
آج یعنی جب تک زندگی ہے عمل کا موقعہ ہے اس میں حساب وکتاب نہیں ہے اورکل یعنی موت کے بعدحسا ب وکتا ب کا موقعہ ہوگا عمل کا نہیں .
40ـ قالَ(علیه السلام): إتَّقُوا مَعَاصِیَ اللّهِ فِى الْخَلَواتِ فَإنَّ الشّاهِدَ هُوَ الْحاکِم.(40)
تنہائوں میں بھی خدا وند عالم کی نا فرمانی سے بچو اس لئے کہ ان پر گواہ ہی ان کے بارے میں فیصلہ کر نے والا ہے
.........................................................
حوالے
[1] ـ أمالى صدوق : ص 97، بحارالأنوار: ج 90، ص 343، ح 1.
[2] ـ أمالى طوسى : ج 1، ص 114 ح 29، بحارالأنوار: ج 1، ص 169، ح 20.
[3] ـ وسائل الشّیعة: ج 25، ص 434، ح 32292.
[4] ـ وافى: ج 4، ص 402، س 3.
[5] ـ أعیان الشّیعة: ج 1، ص 350، بحارالأنوار: ج 41، ص 150، ضمن ح 40.
[6] ـ أمالى طوسى: ج 1، ص 55، بحارالأنوار: ج 2، ص 48، ح 7.
[7] ـ أمالى صدوق: ص 95، بحارالأنوار: ج 68، ص 181، ح 35.
[8] ـ بحار الأنوار: ج 5، ص 317، ح 16، به نقل از ثوابالأعمال.
[9] ـ أمالى طوسى : ج 1، ص 372، بحارالأنوار: ج 63، ص 152، ح 5.
[10] ـ أمالى طوسى: ج 1، ص 372، بحارالأنوار: ج 63، ص 155، ح 5.
[11] ـ عدّة الدّاعى: ص 85، ص 1، بحارالأنوار: ج 101، ص 73، ح 24.
[12] ـ مستدرک الوسائل : ج 16، ص 291، ح 19920.
[13] ـ بحارالأنوار: ج 69، ص 68، س 2، ضمن ح 28.
[14] ـ محبّة البیضاء: ج 5، ص 144، تنبیه الخواطر: ص 195، س 16.
[15] ـ مستدرک الوسائل: ج 3، ص 210، ح 3386.
[16] ـ بحارالأنوار: ج 1، ص 96، ح 40.
[17] ـ بحارالأنوار: ج 70، ص 13.
[18] ـ نزهة الناظر و تنبیه الخاطر حلوانى: ص 70، ح 65.
[19] ـ عدّة الدّاعى: ص 75، س 8، بحارالأنوار: ج 1، ص 205، ح 33.
[20] ـ نزهة الناظر و تنبیه الخاطر حلوانى: ص 52، ح 26.
[21] ـ نزهة الناظر و تنبیه الخاطر حلوانى: ص 46، ح 12.
[22] ـ اختصاص شیخ مفید: ص 189، س 5.
[23] - وسائل الشیعة: ج 16 ص 76 ح 5.
[24] ـ وسائل الشّیعة: ج 1، ص 334، ح 880.
[25] ـ وسائل الشّیعة: ج 18، ص 316، ح 23750.
[26] ـ وسائل الشّیعة: ج 16، ص 270، ح 21539.
[27] ـ تحف العقول: ص 120، بحارالأنوار: ج 77، ص 271، ح 1.
[28] ـ بحارالأنوار: ج 76، ص 155، ح 36، و ص 229، ح 10.
[29] ـ اصول کافى: ج 1، ص 27، بحارالأنوار: ج 1، ص 161، ح 15.
[30] ـ تحف العقول: ص 152، بحارالأنوار: ج 78، ص 54، ح 97.
[31] ـ خصال : ج 2، ص 170، بحارالأنوار: ج 73، ص 142، ح 18.
[32] ـ شرح نهج البلاغه ابن عبده: ج 3، ص 165.
[33] ـ شرح نهج البلاغه فیض الاسلام: ص 1193.
[34] ـ شرح نهج البلاغه فیض الاسلام: ص 1235.
[35] ـ اصول کافى، ج 2، ص 627، ح 2.
[36] ـ بحارالأنوار: ج 75، ص 53، ح 10.
[37] ـ وسائل الشّیعة: ج 15، ص 23، ح 19934.
[38] ـ شرح نهج البلاغه فیض الإسلام: ص 1183.
[39] ـ شرح نهج البلاغه ابن عبده: ج 1، ک 41.
[40] ـ شرح نهج البلاغه ابن عبده: ج 3، ص 324.
مرتب:سید حمیدالحسن زیدی، الاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔