حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،کورونا وائرس میں مبتلا ہو کر انتقال کرنے والوں کی تجہیز و تکفین جب ایک سماجی مسئلے کا رخ اختیار کر گیا ، تو سری نگر سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر پیشہ نوجوان نے ذاتی خرچے پر ان متوفین کی لاشوں کی تدفین کا بیڑا اٹھایا ۔
سری نگر کے قمر واری علاقے سے تعلق رکھنے والے 38 سالہ سجاد احمد خان نے بیس لڑکوں پر مشتمل رضاکاروں کی ایک ٹیم تیار کی ہے ، جنہیں چار چار رضاکاروں کے گروپس میں منقسم کیا ہے۔ سجاد احمد سری نگر کے کسی علاقے سے کووڈ مریض کے انتقال سے متعلق کال حاصل کرتے ہی ان رضاکاروں کو حفاظتی لباس فراہم کر کے جائے موقع پر متوفی کی تجہیز و تکفین کے لوازمات کی ادائیگی کے لئے روانہ کردیتے ہیں ، جہاں وہ لوازمات کی ادائیگی کے بعد حفاظتی لباس کو خاکستر کر کے سیدھے کوارنٹائن میں چلے جاتے ہیں ۔ وہ ان رضاکاروں کے حفاظتی لباس کا خرچہ خود برداشت کرتے ہیں۔
سجاد احمد نے اپنی اس اہم پہل کے حوالے سے مقامی میڈیا کو بتایا کہ کورونا سے انتقال کرنے والوں کی تدفین کا ایک سماجی مسئلہ بن جانا میرے لئے اس اقدام کو اٹھانے کا محرک بن گیا۔ انہوں نے کہا کہ جب میں نے بمنہ علاقے میں کووڈ سے مرنے والی ایک خاتون کی تدفین کے دوران لوگوں یہاں تک قریبی رشتہ داروں کے غیر ذمہ دارانہ رویہ کو دیکھا اور یہ دیکھا کہ کووڈ سے مرنا ایک سماجی مسئلہ بن گیا ہے ، تو میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مشورہ کر کے اس معاملے کے حوالے سے کام کرنے کی ٹھان لی ۔
سجاد احمد خان نے کہا کہ میں نے بیس رضاکاروں پر مشتمل ایک ٹیم بنائی ، جن کو چار چار کے گروپس میں رکھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے بیس رضاکاروں پر مشتمل ایک ٹیم بنائی اور ان کو چار چار کے گروپس میں منقسم کیا ۔ جب مجھے کسی علاقے سے کووڈ مریض کے انتقال کی کال آتی ہے تو میں ان کو بلاتا ہوں ، انہیں حفاظتی لباس فراہم کر کے جائے موقع پر بھیج دیتا ہوں ، جہاں یہ گروپ متوفی کی تدفین کے لوازمات کی ادائیگی کے بعد حفاظتی لباس کو وہیں جلا کر سیدھے کوارنٹائن میں جاتا ہے، ٹیم میں وہی رضاکار کام کرتے ہیں ، جو کوارنٹائن میں جانے کے لئے تیار ہیں ۔
موصوف نے کہا کہ میں اپنے ذاتی خرچے پر ان رضاکاروں کے لئے حفاظتی لباس کی تمام تر چیزیں مہیا کرتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے فیس بک پیج 'اتھ واس' پر یہ پیغام عام دیا ہے کہ اگر کسی کو کووڈ سے مرنے والوں کی تدفین کے لئے مدد کی ضرروت ہے تو میں مدد کے لئے تیار ہوں۔ مسٹر خان نے کہا کہ یہ ویڈیو وائرل ہوتے ہی مجھے کالس آنے لگیں اور میں نے کام شروع کیا۔