حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،سرینگر انجمن شرعی شیعیان جموں و کشمیر کے خانہ نظر بند صدر حجۃ الاسلام والمسلمین آغا سید حسن الموسوی الصفوی نے ضلع بڈگام کے علاقے مولہ شولہ بیروہ میں واقع روحانی بزرگ اور داعی دین حضرت سید باقر رضوی القمی کے آستان عالیہ میں آتشزدگی کے پراسرار سانحہ پر دکھ اور افسوس ظاہر کرتے ہوئے تین سو سالہ پرانے طرز تعمیر کے اس نایاب نمونے کی خاکستری کو ناقابل تلافی نقصان قرار دیا۔
آغا حسن نے کہا کہ حضرت سید باقر الرضوی القمی کی دینی اور تبلیغی خدمات ناقابل فراموش ہیں جنہوں نے ایران سے آکر سرزمین کشمیر میں اپنی ساری زندگی اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور تشہیر و ترویج میں بسر کی۔
آغا حسن نے کہا کہ آستانہ عالیہ صدیوں سے عوام و خواص کی عقیدت کا مرکز رہا ہے جہاں روحانی فیض حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ عقیدت مندوں کا تانتا بندھا رہتا ہے اور آستان عالیہ پر ہر سال عزاداری کی مجلس منعقد ہوتی ہے۔ مذکورہ زیارت گاہ کی خاکستری سے عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
آغا حسن نے کہا کہ گذشتہ دو ماہ کے دوران مختلف مذہبی مقامات پر پیش آئیں وارداتوں کے تناظر میں مذکورہ آستان عالیہ میں آتشزدگی کے تازہ واقعہ نے عوام کو اور بھی متفکر کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی وارداتوں سے نہ صرف عوام کے دینی اور عقیدتی جذبات مجروح ہو رہے ہیں بلکہ کشمیری قوم اپنے بیش قیمت تہذیبی اور ثقافتی ورثے سے بھی محروم ہوتی جا رہی ہے۔
دریں اثناء انجمن شرعی شیعیان کے ایک اعلی سطحی وفد جس میں حجت الاسلام آغا سید احمد الموسوی الصفوی، آغا سید مجتبی عباس الموسوی الصفوی، غلام محمد ناگو اور سید باقر موسوی نے جائے واردات کا دورہ کیا اور آستانہ عالیہ کو پہنچ کر ناقابل تلافی نقصان کا جائزہ لیا۔
واضح رہے کہ مولہ شولہ میں مدفون سید باقر وادی کشمیر کے بڑے مبلغین اور اکابرین میں شمار ہوتے ہیں ۔ تاریخی کتب کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ 798 ہجری میں سید باقر رضوی وارد کشمیر ہوئے تھے اور مولہ شولہ میں قیام پذیر ہوئے تھے اور پھر یہی مدفون بھی ہوئے ۔ مولہ شولہ میں ہر مکتب فکر کے لوگ ان کے آستانہ پر حاضری دینے کیلئے آتے تھے ۔ مولہ شولہ میں یہ زیارت روحانی فیض حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ زیارت شریف اسلامی طرز تعمیر کا ایک نادر و نایاب نمونہ تھا۔ یہ خاص طرز تعمیر کشمیر میں دور سلاطین کا ایک یادگار نمونہ تھا ۔
بتایا جاتا ہے کہ سید باقر نے اپنی ساری زندگی دین حق کی تبلیغ اور اس کی نشر و اشاعت میں صرف کی ۔ روحانی اور باطنی کمالات کے ساتھ ساتھ ان کی تصنیف و تالیف بھی کافی مشہور ہیں ۔ ان کی ایک مشہور ومعروف کتاب "کتاب النور" علمی حلقوں میں کافی اہم کتاب مانی جاتی ہے ۔ مولہ شولہ میں ان کی زیارت گاہ پر مجالس عزاء کا بھی اہتمام ہوتا تھا ۔ لوگ زیارت شریف میں آگ کی واردات کو ایک بڑے صدمے اور سانحہ سے تعبیر کر رہے ہیں ۔