حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،سرینگر، جموں کشمیر انتظامیہ کی جانب سے جاری کئے گئے کئی سرکاری حکم نامے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ہیں،جسکی وجہ سے وادی میں 2019کی طرح لوگوں میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔
ایک سرکاری آرڈر میں گیس ڈیلروں کو آئندہ 2 ماہ کیلئے گیس ذخیرہ کرنے کا حکم دیا گیا جبکہ دوسرے حکمنامہ میں سیکیورٹی فورسز کیلئے اسکولی عمارتیں خالی کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
ادھر ڈائریکٹر امور صارفین و عوامی تقسیم کاری بشیر احمد خان نے بتایا کہ گیس ذخیرہ کرنے سے متعلق حکمنامہ معمول کا عمل ہے،لوگوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔تاہم سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے سرکاری حکمنامے جاری کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جموں و کشمیر انتظامیہ سے درخواست کی ہے کہ آرڈر جاری کرنے کی علت بیان کرے؟
یاد رہے کہ گزشتہ سال فروری میں پاکستان کے اندر بالاکوٹ آپریشن اور گذشتہ سال ہی اگست میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے سے قبل حکومت نے اسی طرح کے سرکاری حکمنامہ،ایڈوائزی اور آرڈرس جاری کیے تھے۔کشمیر نیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق جموں کشمیر سرکار کی جانب سے سوشل میڈیا پر کئی حکم نامہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ہیں جن میں متعلقہ محکمہ جات کو سیکورٹی فورسز کے لئے اسکولی عمارتوں کو تلاش کرنا اور ایل پی جی کے سٹاک دو ماہ کے لئے ذخیرہ کرنے کا احکامات جاری کئے گئے ہیں۔
اس دوران دو الگ الگ سرکاری حکم ناموں میں ضلع گاندر بل میں میں فورسز کے قیام کے لئے تعلیمی اداروں کو تلاش کرنا بھی شامل تھا۔اس دوران ان حکم ناموں کے بعد وادی کشمیر اور کرگل، ہندوستان اور چین کے حالیہ واقعہ کو لے کر عوام میں بے چیینی پھیل گئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایل جی ایس مورمو نے ایک ہنگامی اور اہم میٹنگ منعقد کرنے کے لئے کہا ہے جس دوران 23 جون کو ایک اہم میٹنگ منعقد کی گئی جس میں وادی میں 2 ماہ تک کے لئے ایل پی جی ذخیرہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے کیوں کہ سرینگر،جموں شاہراہ خرابی موسم کے باعث شاہراہ پر آمد رفت بند ہو سکتی ہے۔ڈائریکٹر فوڈ، سول سپلائیز اینڈ کنزیومرز کے منظور کردہ ایک آرڈر کے مطابق، تیل کمپنیوں کو ایل پی جی کا مناسب ذخیرہ کرنا چاہئے،جو دو ماہ تک برقرار رہ سکتا ہے۔
ایک قومی روز نامی میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق یہ پہلا موقع ہے جب انتظامیہ نے گرمیوں کے عروج پر ایل پی جی سیلنڈر ذخیرہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عام طور پر، اس طرح کی چیزیں اکتوبر سے نومبر میں کی جاتی ہیں جب وادی کشمیر میں موسم سرما کی سختی شروع ہوتی اور شاہراہوں پر ٹریفک متاثر ہوتی۔ادھر ایک الگ حکم کے تحت، سپرنٹنڈنٹ پولیس، گاندربل نے ضلع کے16 تعلیمی اداروں جس میں آئی ٹی آئی عمارتوں، مڈل اور ہائیر سیکنڈری اسکولوں کو بھی خالی رکھنے کی درخواست کی گئی ہے۔ حکم میں لکھا گیا ہے کہ ’شری امرناتھ جی یاترا۔2020 کے پیش نظر، یہ تعلیمی مراکز سنٹرل آرمڈ پولیس فورس (سی اے پی ایف) کمپنیوں کی رہائش کے لئے دستیاب کیے جائیں گے۔بتایا جات ہے کہ موجودہ کووڈ کے پیش نظر امسال امر ناتھ یاتریوں کی اتنی بڑی تعداد میں لوگ نہیں آئیں گے۔
اور اس طرح کی تیاریاں لداخ معاملہ کے پیش نظر کی جا رہی ہیں۔گذشتہ سال کے دو واقعات کے مقابلہ میں اب کی بار لوگوں کے دلوں میں بہت زیادہ پریشانی اور بے چینی لاحق ہوئی ہے۔ پچھلے سال فروری میں پاکستان کے اندر بالاکوٹ آپریشن اور گذشتہ سال اگست میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے سے قبل حکومت نے اس طرح کے احکامات جاری کیے تھے جو حکم نامہ وائرل ہوئے تھے اور ابتدائی طور انہیں غلط اور فرضی بتایا گیا تھا جو بعد میں سبھی سچ ثابت ہوئے۔
اس معاملہ سے کے این ایس نے جب محکمہ امور صارفین و عوامی تقسیم کے ناظم بشیر احمد خان سے رابطہ قائم کیا اور ایل پی جی گیس دو ماہ کیلئے ذخیرہ کرنے کے حکمنامہ کے بارے میں جانا چاہا،تو انہوں نے یہ ایک معمول کا عمل ہے،انہوں نے کہا ’سرینگر۔جموں شاہراہ بند رہنے کی وجہ سے وادی میں گیس کی قلت پیدا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے،لہٰذا وادی میں استاک رکھنا معمول کا عمل ہے۔ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
ادھر سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ نئے سرکاری حکمناموں سے عوام میں تشویش اور اضطراب کی لہر دوڑ رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ سرکاری آرڈر جاری کرنے کی وجوہات عوام کے سامنے رکھے اور تضاد و تشویش اور اضطرابی کیفیت کو ختم کرے۔انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کنفیوژن کو دور کرے۔عمر عبداللہ نے ان خیالات کا اظہار سماجی رابطہ ویب سائٹ ٹویٹر پر کیا۔