حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کے زير انتظام کشمير ميں سالہا سال سے چلا آ رہا مسلح تنازعہ اور حاليہ برسوں ميں ہونے والی پيشرفت مقامی بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے اس صورت حال پر تشويش ظاہر کی ہے۔
ايک کمسن بچہ اپنے دادا کی لاش پر بيٹھا ان کی ہلکی سی سرسراہٹ کا منتظر دکھائی ديتا ہے۔ پچھلے ہفتے منظر عام پر آنے والی اس تصوير نے مسلح کشميری تنازعے کے ایک اور مختلف پہلو کی طرف توجہ مبزول کرائی۔ عليحدگی پسندوں اور ہندوستانی سکيورٹی فورسز کی لڑائی ميں کشمير کے خطے ميں جنم لينے والے بچوں کی ايک پوری کی پوری نسل بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
بسيم اعجاز کی عمر صرف بارہ برس تھی، جب وہ سری نگر کے قريب ايک حادثاتی دھماکے کی زد ميں آ کر ہلاک ہو گيا۔ بسيم کے والد اعجاز احمد نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ ان کا کمسن بيٹا شری مہاراجا ہری سنگھ ہسپتال ميں کئی ايام تک زندگی اور موت کی کشمکش ميں مبتلا رہا اور بالآخر اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے بارہ مئی کو چل بسا۔ بسيم کی والدہ کوثر جان اپنے بيٹے ی ہلاکت پر آج تک سمجھوتہ نہيں کر پائی۔
چار سالہ نہان ياور چھبيس جون کو اپنے والد کے ساتھ يونہی باہر نکلا تھا، کسے معلوم تھا کہ وہ کبھی واپس نہيں آئے گا۔ عليحدگی پسندوں نے سکيورٹی فورسز پر گولی چلائی اور اسی اثناء ايک گولی جا لگی ننے نہان کے جسم پر اور وہ وہيں دم توڑ گيا۔ يہ واقعہ کشمير کے جنوبی حصے کے اننت ناگ ضلع ميں پيش آيا۔
ماہرين کا کہنا ہے کہ کشمير ميں بچے دن بدن بڑھتے ہوئے تشدد کے ماحول ميں بڑے ہو رہے ہيں، جو ان کی ذہنی نشو نما کے ليے نقصان دہ ہے۔
پچھلے ہفتے ايک تصوير کافی وائرل ہوئی، جس سے کسی حد تک کشميری بچوں اور مجموعی طور پر خطے کی صورتحال کی عکاسی ہوتی ہے۔ تصوير ميں ايک چھوٹا سا بچہ اپنے دادا کی چھاتی پر بيٹھا دکھائی ديتا ہے۔
بشير احمد خان مبينہ طور پر ہندوستانی پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ ان کے ايک رشتہ دار فاروق احمد نے جائے وقوعہ پر موجود مقامی افراد کے ذرائع سے بتايا کہ سکيورٹی فورسز نے بشير احمد کو گاڑی سے باہر نکالا اور گولی مار کر ہلاک کر ديا۔
چھوٹا سا بچہ جو اپنے دادا کی لاش پر بيٹھا دکھائی ديا، اس کی والدہ ارم نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ اس واقعے نے ان کے بيٹے کو ہميشہ کے ليے خوف زدہ کر ديا ہے، ”يہ منظر پوری زندگی اس کا ساتھ نہيں چھوڑے گا۔ اس نے اپنے دادا کی لاش ديکھی اور ارد گرد يونيفارم ميں سپاہی تھے۔‘‘
واضح رہے کہ پوليس نے مقتول کے اہل خانہ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے قانونی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔
ہندوستانی وزير اعظم نريندر مودی کی حکومت نے پچھلے سال اگست ميں کشمير کی خصوصی حيثيت ختم کرتے ہوئے جموں و کشمير و براہ راست وفاق کے کنٹرول ميں لے ليا تھا۔
مودی کا کہنا ہے کہ يہ اقدام عليحدگی پسندوں کی سرگرميوں کو لگام دينے کے ليے ناگزير تھا۔ بعد ازاں پہلے اس فيصلے کی مخالفت اور احتجاج کو روکنے کے ليے لاک ڈاؤن متعارف کرايا گيا اور پھر کورونا وائرس کی وبا پر کنٹرول کے مقصد سے کئی طرح کے پابندياں نافذ کردی گئيں۔
ان اقدامات سے کشميری سماج، اقتصاديات، لوگوں کی روز مرہ کی زندگيوں اور ان کی ذہنی صحت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ ہندوستان کے زير انتظام کشمير کے بيشتر حصوں ميں اسکول کئی ماہ سے بند ہيں اور بچے ملنے جلنے، کھيلنے اور جسمانی ورزش جيسی ديگر سرگرميوں سے محروم ہيں۔
مسلح تنازعات والے علاقوں ميں بچوں کی صورت حال پر اقوام متحدہ کی رپورٹ ميں بتايا گيا ہے کہ ہندوستانی سکيورٹی فورسز، مقامی پوليس اور لشکر طيبہ جيسے جنگجو گروپوں کی کارروائيوں ميں ايک سے سترہ برس کی عمر کے آٹھ بچے ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سات ايسے زخمی ہوئے کہ وہ عمر بھر کے ليے معذور ہو گئے۔ نو سے سترہ برس کی عمر کے اڑسٹھ بچوں کو سکيورٹی دستوں نے حراست ميں بھی ليا۔ اقوم متحدہ نے اس صورتحال پر تشويش ظاہر کی ہے۔
جموں کشمير کوليشن آف سول سوسائٹی (JKCCS) کے مطابق سن 2003 سے سن 2018 کے درميان 318 کشميری بچے ہلاک ہوئے۔ کشمير ميں انسانی حقوق کے ليے سرگرم ايک کارکن خرم پرويز کا کہنا ہے کہ خطے کے بچوں کو دو طرح کے تشدد کا سامنا ہے۔ ايک جب وہ براہ راست قتل، تشدد اور گرفتاريوں کا شکار بنيں اور دوسرا جب وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ظلم و ستم ہوتا ديکھيں۔ ان کے بقول يہ بچے معمول کی زندگی گزارنے سے محروم ہيں۔