۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
ہندوستان میں تصوف کا آغاز

حوزہ/ حوزہ علمیہ قم میں ہندوستان میں تصوف کا آغاز کے عنوان کے تحت مجمع محققین ہند کے فلسفہ وعرفان کے گروہ کی جانب سے مجتمع امین میں ایک علمی نشست کا انعقاد ہوا  جس میں حوزہ علمیہ کے طلاب و افاضل نے شرکت کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حوزہ علمیہ قم میں ہندوستان میں تصوف کا آغاز کے عنوان کے تحت مجمع محققین ہند کے فلسفہ وعرفان کے گروہ کی جانب سے مجتمع امین میں ایک علمی نشست کا انعقاد ہوا  جس میں حوزہ علمیہ کے طلاب و افاضل نے شرکت کی۔

جلسہ میں مجمع محققین ہند کے سکریٹری حجت الاسلام و المسلمین محمد باقر رضا،گروه علمی فلسفہ اور عرفان کے رئیس حجت الاسلام و المسلمین جناب قمر مهدی بھی موجود تھے۔

نشست کاآغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کی ذمہ داری کو حجت الاسلام و المسلمین سید محمد عباس شارب نے  پورا کیا۔ اس کےبعد ناظم علمی جلسہ حجۃ الاسلام والمسلمین سید سکندر کاظم تقوی نے چند مفید باتیں مقدمہ کے طور پر پیش کیں۔ جس میں اہم ترین بات فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو  کے بارے میں تھی۔ انہوں نے چارلی ہیبڈو کے ذریعہ پیغمبر اکرم (ص) کی شان میں گستاخی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے چارلی ہیبڈو کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور اسی طرح فرانس کی حکومت سے اس میگزین کو بند کروانے کی مانگ کی۔

اس علمی نشست میں حوزہ علمیہ اور دیگر یونیورسٹیز کے استاد حجۃ الاسلام والمسلمین جناب ولی پور دام عزه نے ہندوستان کی تاریخ تصوف پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بتایا کہ ہندوستان میں تصوف کا آغاز دوسری صدی ہجری میں ہی ہوچکا تھا  ۔

مقرر جلسہ نے اپنی گفتگو کی ابتدا میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ سرزمین سند میں تصوف کی تاریخ چشتی وغیرہ سے پہلے کی ہے۔مقرر نے اس بات پہ کافی اصرار کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی علمی اور تاریخی تحقیق کے لئے اسکے ابتدائی منابع اور ماخذ کی طرف رجوع ضروری ہے اس بات کے ذیل میں انھوں نے تاریخ عرفان و تصوف کے چند اصلی اور ابتدائی ماخذ کا اجمالی تعارف پیش کیا ۔

مقرر جلسہ نے  صوفی اور تصوف کی وجہ تسمیہ پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اسکے مختلف وجوہات بیان کئے گئے ہیں انھوں نے بتایا کہ لفظ صوفی حسن بصری کے زمانے سے  استعمال ہواہے  ۔ انھوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ جب بعض صوفیوں کی بے اعتدالیوں سے صوفیت منفور ہوئی تو حقیقی صوفیت کو الگ کرنے کے لئے عرفان کا نام دیا گیا  ۔
تقریر کے اگلے حصہ میں مقرر نے تصوف کے متعدد مکاتب فکر پر روشنی ڈالی ،اور اس ذیل میں مکتب بغداد اور قتل حلاج کے بعد وہاں سے صوفیوں کی ہجرت کو بیان کیا اور بتایا کہ اس ہجرت کے نتیجہ میں بعض صوفی حضرات نے ہندوستان کا سفر کیا اور وہاں پر تصوف کی نشر و اشاعت کی۔

انھوں نے بیان کیا کہ قدیمی ترین منبع ابو نصر سراج [متوفی ۳۷۸ھ] کی کتاب اللمع فی التصوف میں ابوعلی سندی کا نام ہندوستان کے تصوف کی سب سے پہلی شخصیت کے عنوان سے کئی جگہ ذکر کیا گیا ہے ۔ انہوں نے صراحت کے ساتھ ان ابواب کا بھی تذکرہ کیا جہاں جہاں انکا نام نامی آیا ہے من جملہ با یزید بسطامی سے انکی ملاقات کے احوال بیان کیے جس سے یہ نتیجہ بھی نکالا جا سکتا ہے کہ ابو علی سندھی بایزد بسطامی کے نہ صرف ہمعصر بلکہ استاد بھی تھے ۔

ولی پور نے مزید فرمایا کہ ان کتاب کے علاوہ اور بھی قدیمی منابع و ماخذ میں انکا  ذکر آیا ہے از جملہ روزبہان بقلی نے انکو"مسافر عالم اعیان " بحر حقائق ،لسان دقائق ابو علی سندھی کہکے یاد کیا ہے ۔

انھوں نے مزید واضح کرتے ہوئے کہا کہ ابوعلی سندھی کی تاریخ ولادت کے بارے میں کوئی تاریخی شواہد تو نہیں ملتے لیکن بایزید بسطامی کے ہمعصر ہونے  سے انکا دوسری صدی ہجری میں ہونا ثابت ہے ۔

آخر میں انہوں نے سندھ کی جغرافیائی حیثیت اور تاریخی قدمت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ سندھ اور ایران کی سرحد ملتی تھیں اور سندھ کے سرحدی علاقوں میں بدھ مذھب کے لوگ تھے انکا مسلمانوں سے سیاسی اور تھذیبی  تعلقات گہرے تھے جس کی ایک بڑی مثال برامکی تھے جنکا نفوذ بنی امیہ اور بنی عباس کے درباروں تک تھا  یہ دونوں تھذیبیں ایک دوسرے پر اثرانداز رہیں اور اسلامی سرزمین کے تصوف کو سندھ تک لے جانے میں معاون رہیں،اخر میں استاد نے چند ضروری اور اہم نکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی تقریر کو ختم کیا۔

یہ جلسہ سوشل میڈیا پر آن لائن نشر کیا گیا جس سے کثیر تعداد میں لوگ مستفیذ ہوئے۔مقرر کے دوران گفتگو جناب سید سکندر کاظم تقوی تقریر کا اردو ترجمہ پیش کرتے رہے جس سے جلسہ کی افادیت میں اضافہ ہوا ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .