حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کہتے ہیں مضبوط قوم اور ترقی یافتہ ملک بننے کےلئے خود داری اور خود مختاری کے نظریے پر عمل لازم ہے، افسوس عالمی بڑوں کی بیٹھک میں مسئلہ کشمیر پر لفظ تک نہیں بولا گیایہ خارجہ پالیسی کی کمزوری نہیں تو کیا ہے؟ریاست مدینہ کا نام لینے والوں کے دور میں بنیادی حقوق ا ور شہری آزادیوں پر قدغنیںاور زیادتیوں کا سلسلہ جاری یہ داخلہ پالیسی کی ناکامی نہیں تو کیاہے؟۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے خارجہ اور داخلہ پالیسیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کیاخارجی پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پوپ فرانسس آیت اللہ العظمیٰ سیستانی ملاقات میں فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کا تذکرہ اور اس کی مذمت کی جاتی ہے لیکن جس طرح کی استعماریت فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھی جارہی ہے ویسے ہی کشمیری بھی فسطائیت کا شکار ہیں توکیوں اس اعلیٰ سطح پر مسئلہ کشمیر اجاگر نہیں ہوتا،کیا یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کمزوری نہیں ہے کہ اہمیت کی حامل دو شخصیات جب دنیا کو درپیش مختلف مسائل کا تذکرہ کرتی ہیں تو مظلوموں کی حمایت کی بات کرتی ہیں مگر کشمیر موضوع بحث نہیں بنتا عراق میں سفارتی مشن کی اس سے بڑی کمزوری کیا ہوگی، ہم اس کے چشم دید گواہ ہیں کہ عراق میں پاکستانی شہریوں کو مشکلات درپیش ہوتی ہیں مگر ہمارے سفارتی مشن لمبی تان کر سو رہے ہوتے ہیں، اگرپاکستانی سفارتی مشنز کی ان بڑی شخصیات تک رسائی ہوتی تو مسئلہ فسلطین کی طرح مسئلہ کشمیر بھی بھرپور انداز میں اجاگر ہوا ہوتا، افسوس کی بات ہے کہ آج تک ہم خارجہ پالیسی کی سمت کا درست تعین نہیں کرسکے ۔
انہوں نے حالیہ داخلہ پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ ایک طرف امن و امان کی صورتحال مخدوش ہے تو دوسری جانب ریاست مدینہ کا نام بار ہا استعمال کیا جاتاہے مگر بنیادی حقوق اور شہری آزادیوں کو سلب کرنے کا سلسلہ جاری ہے، مسلسل قدغنیں لگا کر عوامی جذبات، احساسات حقوق اور مطالبات کو دبایا جارہاہے جس کے رد عمل میں لاوہ پھٹنے کا اندیشہ ہے اس لئے ارباب اختیار کو اس جانب توجہ دینی ہوگی۔