۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
علامہ اختر عباس نجفی رہ

حوزہ/ شیخ الجامعہ علامہ اختر عباس نجفی رہ کا شمار پاکستان کے ان ممتاز ترین علماء دین میں ہوتا ہے جو ملت جعفریہ پاکستان کی تاریخ میں ترویج و تحفظ علوم دین کے لیے رہنما کی حثیت سے آج بھی یاد کیے جاتے ہیں اور جن کی زندگی کو علم و عمل کے میدان میں آنے والی نسلوں کیلئے مشعل راہ کے طور پر متعارف کروانے کی ضرورت ہے 

تحریر: حجۃ الاسلام و المسلمین سید حسن رضا نقوی قم المقدسہ

حوزہ نیوز ایجنسیشیخ الجامعہ علامہ اختر عباس نجفی رہ کا شمار پاکستان کے ان ممتاز ترین علماء دین میں ہوتا ہے جو ملت جعفریہ پاکستان کی تاریخ میں ترویج و تحفظ علوم دین کے لیے رہنما کی حثیت سے آج بھی یاد کیے جاتے ہیں اور جن کی زندگی کو علم و عمل کے میدان میں آنے والی نسلوں کیلئے مشعل راہ کے طور پر متعارف کروانے کی ضرورت ہے 

ابتدائی حالات زندگی
علامہ اختر عباس نجفی رہ سر زمین پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک دور افتاد علاقہ کوٹ ادو کے ایک نواحی گاؤں چاہ کورائی والا ( منہاں شریف ) میں پیدا ہوئے مشہور قول کے مطابق آپ کی ولادت سن 1925 میں ہوئی جبکہ ان کے خانوادہ کا کہنا ہے کہ آپ نے اپنا سن ولادت 1923 بتایا تھا آپ بلوچ قوم کے فرد تھے آپ کے جد امجد خان کورائی سردار امیر جلال خان کورائی کے بیٹے تھے جو کورائی والا کی تاریخ میں وہاں کے اولین افراد میں سے تھے اور اپنے قبیلہ کے سردار اور سرپرست تھے آپ کے والد سردار صدیق محمد خان بلوچ اپنی ذاتی تحقیق سے مذہب شیعہ اثنا عشریہ کو اختیار کیا اور مکتب امام جعفر صادق علیہ السلام کی پیروی کرتے ہوئے اس طرح اپنی اولاد کی تربیت کی کہ در اہلبیت ع سے منسلک رہا جائے اس لیے یہ انکی دی ہوئی تربیت کا اثر تھا کہ ان کے تینوں بیٹے علم دین حاصل کرنے کے لیے گھر سے نکلے   ایک بیٹے کا نام محمد بخش جو مولانا محمد بخش باقری کے نام سے معروف تھے اور قم المقدس میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیے اور محرم الحرام 1409 ھ میں رحلت فرما گئے  دوسرے کا نام عابد حسین تھا جو کہ اپنی جوانی کے عالم میں  دوران تعلیم نجف اشرف عراق میں رحلت فرما گئے اور وادی السلام قبرستان میں مدفون ہیں جبکہ تیسرے بیٹے احمد بخش 1939 میں اختر عباس کے نام سے موسوم ہوئے۔

علمی سفر

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں چاہ کورائی والا منہا شریف میں ہی حاصل کی اور ساتھ والد کے اپنے آبائی پیشہ کاشتکاری میں اپنے والد کے معاون رہے 
( ایک دلچسپ واقعہ؛ آپ تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب واپس پلٹے تو دیکھا آپ کے والد محترم ہل چلا رہے ہیں تو آپ نے سوچا کیو نا والد صاحب کی مدد کی جائے تو آپ نے کہا بابا مجھے دیں میں ہل چلاتا ہوں آپ آرام فرما لیں کیونکہ آپ  اس پیشہ سے زیادہ منسلک نہیں رہے تھے اور کافی عرصہ بعد ایسا کرنا تھا تو آپ نے جو آلات تھے ان میں سے ایک آلہ کو ٹوڑ دیا تو آپ کے والد محترم نے پوچھا یہ کیا کیا تو عرض کرنے لگے ابا حضور وہاں علم سکھاتے ہیں ہل چلانا نہیں )
( نقل کندہ حجت الاسلام والمسلمین مولانا ذوالفقار علی نجفی دام عزہ )

اور 1938 میں مڈل پاس کرنے کے بعد علم دین حاصل کرنے کے لیے رخت سفر باندھا اور ملتان میں مدرسہ علمیہ باب العلوم میں داخلہ لیا اور باقاعدہ تعلیمی سفر کا آغاز کیا اور برجستہ اساتذہ سے کسب فیض کیا باب العلوم میں آپ کے اساتذہ میں حضرت مولانا شیخ محمد یار رہ اور جناب مولانا سید زین العابدین نور اللہ مرقدہ سرفہرست شمارہ ہوتے ہیں مدرسہ باب العلوم میں میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ اس زمانے کی عظیم شخصیت علم و ادب کی بادشاہت ہستی مربی العلماء علامہ سید محمد باقر ھندی چکڑالوی رہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے شاگردوں میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل کیا معلوم یو ہوتا ہے کہ علامہ اختر عباس نجفی رہ نے علم دین کو ہر پہلو سے مکمل طور پر سمجھنے اور پرکھنے میں خوب تگ و دو کی ہے آپ 1940 میں اہلسنت کے بریلوی مکتب فکر کی درسگاہ جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور میں مولانا حافظ مہر محمد میکھیالوی کے پاس گئے اور ان سے معقولات پڑھی اس کے بعد دیوبندی مکتب فکر کی درسگاہ میں مولانا عبد الخالق کی خدمت میں نڑہال ( نزد کبیر والا ) حاضر ہوئے اور ان کے ساتھ دیوبند بھی تشریف لے گئے جہاں مولانا اعزاز علی امروہوی اور شیخ الحدیث حضرت مولانا شیخ محمد ادریس کاندھلوی سے کسب فیض کیا وہاں سے شدید علالت کے باعث وطن واپس آنا پڑا دوران علالت آپ نے منت مانی کہ اگر میں ٹھیک ہو گیا تو میں استاذالعلماء حضرت آیت اللہ سید محمد یار شاہ نجفی نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں جا کر ان سے فقہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا علم حاصل کرونگا اس طرح پروردگار عالم نے آپ کو صحت و تندرستی عطا فرمائی اور آپ استاذالعلماء رہ کی خدمت میں جلال پور ننگیانہ سرگودھا میں گئے اور ان سے کسب فیض کیا آپ استاذالعلماء حضرت آیت اللہ سید محمد یار شاہ نجفی نور اللہ مرقدہ کے انتہائی محترم اور لائق شاگردان میں سے تھے استاذالعلماء ہمیشہ آپ جیسے شاگردوں پر فخر محسوس کرتے تھے۔

قیام در نجف اشرف

1945 بروز عید سعید غدیر میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپ نے نجف اشرف عراق کی طرف سفر کیا اور جوار امیر المومنین ع میں باب العلم کے دروازہ سے علم دین حاصل کرنے کا ارادہ کیا یہ آپ کی علمی زندگی کا ایک یادگار سفر تھا آپ نے نجف اشرف عراق میں پہنچ کر علم دین کی تحصیل میں مشغول ہو گئے اور وہاں جو شخصیات موجود تھی وہ بعد میں  آنے والے دور میں نمایاں علمی ہستیاں شمار کی گئی علامہ اختر عباس نجفی رہ نے نجف اشرف میں جہاں خود بہت سی علمی شخصیات سے کسب فیض کیا وہاں پر بہت سارے تشنگان علوم آل محمد کی علمی پیاس بھی بجھائی 

نجف اشرف میں آپ کے اساتذہ میں

 حضرت حضرت آیت اللہ العظمی شیخ مجتبی لنکرانی 
 حضرت آیت اللہ العظمی آقای ابو القاسم رشتی 
 حضرت آیت اللہ العظمی مرزا محمد باقر زنجانی
 اور حضرت آیت اللہ العظمی السید ابو القاسم الموسوی الخوئی
 جیسے بلند پایہ فقہاء اور مجتہدین شامل ہیں جن سے آپ نے فقہ و اصول الفقہ کی تعلیم حاصل کی آپ حضرت آیت اللہ العظمی السید خوئی کے خاص شاگردان میں شامل تھے اور آپ کا تذکرہ آیت اللہ العظمی السید خوئی وقتا فوقتا اچھے الفاظ میں فرمایا کرتے تھے حضرت آیت اللہ شھید باقر الصدر آیت اللہ مرزا علی غروی اور آیت اللہ موسوی اردبیلی ( جو بعد میں اسلامی جمہوریہ ایران کی عدالت عظمی کے چیف جسٹس رہے ) آپ کے ہمدرس اور ہم عصر تھے نجف اشرف میں آپ مرجع تقلید حضرت آیت اللہ العظمی سید محسن الحکیم طباطبائی کے ساتھ بحیثیت اردو ترجمان رہے اور دنیا بھر سے مراجع کرنے والے اردو زبان کے لوگوں کی دینی مشکلات حل فرماتے رہے آپ کے بعد یہ زمداری آپ کے رشتہ دار مولانا صادق علی نجفی صاحب انجام دیتے رہے 

شادی 

علامہ اختر عباس نجفی رہ 4 رمضان المبارک 1368 ہجری نجف اشرف میں قیام کے دوران رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے آپ کی اہلیہ محترمہ معروف نجفی عالم دین  شیخ کاظم علی نجفی کشمیری کی صاحبزادی ہیں آپ کا نکاح مسنون حضرت آیت اللہ العظمی السید محسن الحکیم طباطبائی اور حضرت آیت اللہ العظمی محمد تقی آل راضی نے پڑھا اور آپ کا نکاح نامہ حضرت آیت اللہ جواد تبریزی نے اپنے دست مبارک سے تحریر کیا معروف انڈین عالم دین آیت اللہ سید طیب جزائری مرحوم آپ کے ہم زلف تھے شادی خانہ آبادی کے بعد علامہ اختر عباس نجفی رہ نے فکری معاش سے آسودگی کے لیے نجف اشرف میں باب قبلہ کے ساتھ کتابوں کی دوکان کھولی آپ کے فرزند ناصر محمد خان نکل کرتے ہیں کہ آپ کے آپ کے استاد حضرت آیت اللہ العظمی لنکرانی جب بھی کبھی اس راہ سے گزرتے تو کافی دیر وہاں تشریف رکھتے ان کا نجف اشرف میں بہت احترام تھا ایک مرتبہ جب علامہ اختر عباس نجفی رہ کی طرف سے تشکر و استفسار کیا گیا تو آقائ لنکرانی نے فرمایا میں یہاں اس لیے ٹہرتا ہوں تاکہ عوام جان لیں کہ اس دکان کا مالک کوئی عام شخص نہیں بلکہ ایک صاحب علم شخص ہے علامہ اختر عباس نجفی رہ درجہ اجتہاد پر فائز ہونے کے بعد نجف اشرف میں ہی درس و تدریس کے فرائض انجام دینے شروع کر دیے 

تاسیس جامعہ المنتظر لاہور

 1950 کے عشرہ کے اوائل میں لاہور سے جناب خواجہ محمد طفیل اپنے خمس کی ادائیگی کے لیے نجف اشرف تشریف لے گئے اور محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی رہ سے ملاقات کی اور خواہش ظاہر کی  کہ میں حضرت آیت اللہ العظمی آقای بروجردی کی خدمت میں خمس پیش کرنا چاہتا ہوں لیکن محسن ملت رہ کی خواہش تھی کہ شیخ الجامعہ علامہ اختر عباس نجفی رہ لاہور میں تشریف لے جائے اور وہاں جا کر ایک مدرسہ علمیہ قائم کریں تو اس سلسلہ میں علامہ اختر عباس نجفی رہ سے بات کی گئی تو آپ نے اس عظیم زمداری کو اس شرط کے ساتھ قبول کیا کہ آیت اللہ بروجردی رہ آپ کو اپنا وکیل مطلق بنائیں اس طرح علامہ سید صفدر حسین نجفی رہ خواجہ محمد طفیل کو اپنے ساتھ لے کر آیت اللہ العظمی بروجردی کی خدمت میں گئے اور ان سے گزارش کی کہ یہ مومن پاکستان سے تشریف لائیں ہیں اور آپ کو خمس پیش کرنا چاہتے ہیں ساتھ ہی اپنی خواہش اور علامہ اختر عباس نجفی رہ کی شرط کا بھی ذکر کیا اس بات کو آیت اللہ العظمی بروجردی نے نا صرف قبول کیا بلکہ اپنی طرف سے مذید رقم شامل کر کے علامہ اختر عباس نجفی رہ کو اپنا وکیل مطلق مقرر فرما کر پاکستان بھیجا اور آپ نے لاہور میں آ کر 1954 میں جامعہ المنتظر کی تاسیس فرمائی اور لاہور کے اہم علاقہ موچی دروازے میں حسینیہ ہال ایک سو روپے ماہوار کرائے پر حاصل کیا گیا اور درس و تدریس کا آغاز ہوا ساتھ ہی نماز با جماعت کا اہتمام کیا گیا اور مومنین کی ضروریات کو محسوس کرتے ہوئے ایک مختصر رسالہ کا بھی اہتمام کیا جو جامعہ کے نام سے چھپتا تھا اسی دوران مشہور ہے کہ آپ نے دس افراد پر مشتمل جس میں آپ خود بھی شامل تھے صیغہ اخوت کا عظیم کام انجام دیا 1954 سے 1964 تک دس سال کے عرصے میں آپ نے جامعہ المنتظر لاہور میں خدمات سرانجام دی اور پھر تین سال کے لیے نجف اشرف تشریف لے گئے

قم المقدس میں آمد

نجف اشرف میں تین سال قیام کے بعد آپ قم المقدس میں تشریف لائے اور یہاں سکونت اختیار کی ہوا جو کہ اسی زمانہ کے قم المقدس میں اس وقت کے آیت اللہ العظمی السید محمد کاظم شریعتمداری نے ایک جامعہ علمی ادارہ دارالتبلیغ اسلامی کے نام سے قائم کیا خود علامہ اختر عباس نجفی رہ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایران سے ایک علماء کا وفد جن میں آیت اللہ العظمی آقای ناصر مکارم شیرازی آیت اللہ استاد شھید مرتضی مطهری اور آیت اللہ العظمی آقای جعفر سبحانی شامل تھے نجف اشرف تشریف لے گئے اور وہاں اپ سے ملاقات کی اور آقائ شریعتمداری رہ کی طرف سے قم المقدس میں میں آنے کی دعوت دی تاکہ آپ سے دارالتبلیغ اسلامی کے شعبہ اردو میں مدد لی جا سکے اس طرح آپ نے اس وفد کی دعوت کو قبول فرمایا اور قم المقدس میں تشریف لائے اور اپنی خدمات سرانجام دی اور ساتھ ہی آیت اللہ العظمی شریعتمداری رہ کے درس خارج میں شرکت کرنا شروع کر دی اور انکے دروس کو باقاعدہ طور پر ریکارڈ بھی کیا 

دوبارہ وطن واپسی

1974 میں اپنے آبائی گاؤں کے مومنین کی ضروریات کو محسوس کرتے ہوئے پاکستان میں کوٹ ادو تشریف لائے اور وہاں پر دارالتبلیغ اسلامی جامعہ الشیعہ کی بنیاد رکھی اور اس طرح اپنے آبائی گاؤں کا علمی و دینی خدمات کے ذریعے حق ادا کیا علامہ اختر عباس نجفی رہ نقل کرتے تھے کہ اس مدرسہ کے لیے دارالتبلیغ اسلامی قم المقدس سے کبھی کوئی معاونت شامل نہیں رہی بلکہ یہ مومنین کی مدد اور قبلہ کی ذاتی کاوشوں کے نیتجے میں معرض وجود میں آیا 1987 میں وہاں ایک ایک شاندار اور وسیع مسجد کی بنیاد رکھی قبلہ نے جس میں ہزاروں کی تعداد میں نمازی نماز ادا کر سکتے تھے شروع میں لوگوں نے تعجب کیا علامہ صاحب نے اتنی بڑی مسجد تو بنا ڈالی پر اس میں نمازی کہاں سے آئیں گے لیکن قبلہ کی تبلیغ کا اثر تھا کہ آہستہ آہستہ یہ مسجد نمازیوں سے پر ہونے لگی اور الحمداللہ اب نماز جمعہ اور عیدین کے مواقع پر نمازیوں سے کھچاکھچ بھری ہوتی ہے البتہ سننے میں آیا ہے کہ جس حد تک علامہ مرحوم چاہتے تھے اس طرح تعمیرات نہیں ہو سکی اور ابھی تک تشنہ تکمیل ہے

ملی اور سیاسی خدمات

 ایک زمدار عالم دین ہونے کی حثیت سے علامہ اختر عباس نجفی رہ نے کبھی بھی اپنے فریضہ شرعی میں سستی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ تمام قومی معاملات میں صفحہ اول میں رہے تمام معاملات وہ چاہیے تحفظ عقائد مذہب حقہ کا معاملہ ہو یا ملت جعفریہ پاکستان کے تشخص کا یا ملک میں نفاذ شریعت کا علامہ مرحوم نے اپنی صوابدید کے مطابق اپنا کردار بھرپور اور بے باکانہ ادا کیا سن 1960 میں جب شیخی نظریات کو شیعیت میں مدغم کرنے کی کوشش ہوئی تو محراب و منبر کی سچی پاسداری کے لیے علماء نے اپنی آواز بلند کی جن میں استاذالعلماء حضرت آیت اللہ سید محمد یار شاہ نجفی نور اللہ مرقدہ قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم علامہ سید گلاب علی نقوى رہ علامہ حسین بخش جاڑا مرحوم علامہ محمد حسین نجفی حفظہ اللہ علامہ حافظ سیف اللہ جعفری مرحوم اور شیخ الجامعہ علامہ اختر عباس نجفی رہ شامل تھے ان سب علماء کے ساتھ ساتھ آپ کی خدمات آج بھی اظہر من الشمس ہیں  1977 میں جب پاکستان میں عام انتخابات کا غلغلہ ہوا تو اسلامی نظر رکھنے والی قوتیں نظام مصطفی کے عنوان سے تحریک کی صورت اختیار کر گئی علامہ اختر عباس نجفی رہ نے اس کی تائید کرتے ہوئے مفتی محمود کے ساتھ کوٹ ادو میں جلسہ عام سے خطاب بھی کیا اس سے پہلے تحریک ختم نبوت  میں بھی انہوں نے نہایت سرگرمی سے حصہ لیا تھا جب جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا لگا کر اسلامی نظام حکومت کے لیے ظاہری کاروائی شروع کی تو شیعہ قوم نظر انداز کی جانے لگی قائد ملت جعفریہ علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم جو ہمیشہ دینی ملی و ملکی خدمات میں نمایاں رہے تھے اور 1951 کے مشہور بائیس نکاتی اعلان پر دستخط بھی کر چکے تھے 1979 میں جنرل ضیاء الحق کی مشاورتی کونسل سے استعفی بھی دے دیا جس کے بعد ملت تشیع میں ایک تشویشناک صورتحال وجود میں آئی شیعہ قوم کے نمائندہ علماء کرام زعماء ملت ہر خاص و عام نے مل کر بھکر قصر زینب میں ایک کنوینشن رکھا جہاں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ وجود میں آئی اور مفتی جعفر حسین مرحوم کو قائد ملت جعفریہ کا درجہ دیا گیا اس فیصلہ میں علامہ اختر عباس نجفی رہ پیش پیش تھے بعد میں بھی جب کبھی ملت جعفریہ پر مشکل وقت آیا علامہ مرحوم کی خدمات نمایا رہی سانحہ کوئٹہ کے موقع پر جنرل ضیاء الحق نے علامہ مرحوم سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو اس ملاقات میں بھی علامہ اختر عباس نجفی رہ نے شیعہ قوم کا موقف بھر پور طریقے سے پیش کیا علامہ مرحوم کی زندگی کے آخری ایام میں علماء کمیٹی کی طرف سے ایک اعلامیہ سامنے آیا جو قوم کے لیے علامہ کی نظر میں سودمند ثابت نہیں ہونا تھا جسے علامہ نے رد کیا جس کے نتیجہ میں کمیٹی میں تبدیلی لائی گئی اور امور کو احسن طریقے سے انجام دینے شروع کر دیے

انقلاب اسلامی ایران

 اس صدی کا سب سے بڑا اسلامی انقلاب جو 1979 میں ایران میں وقوع پزیر ہوا جس کے نتیجہ میں وہاں قدیمی بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا یہ انقلاب دنیا بھر میں جہاں غلامی اور آمریت کے خلاف تحریکوں میں رہنما ثابت ہوا وہی عالم اسلام کے تشخص کے لیے اس کا کردار قابل قدر رہا علامہ اختر عباس نجفی رہ ان دنوں پاکستان تشریف لائے ہوئے تھے لہذا عوام کے سامنے اس انقلاب کا بھرپور اور مثبت طریقے سے تعارف کروایا اور ہر جگہ انقلاب اسلامی کے موقف کو اپنے خطابات میں اجاگر کیا اور ملت عظیم پاکستان کو روشناس کرایا نجف اشرف میں جب رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی السید روح اللہ موسوی الخمینی جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے تو علامہ اختر عباس نجفی رہ کے امام راحل سے بہت اچھے مراسم تھے اور ان کی خدمت میں آپ جایا کرتے تھے ان مراسم کی وجہ سے جب آپ ایران تشریف لے گئے تو اس وقت کی شاہ کی بدنام زمانہ پولیس ( ساواک ) نے آپ کی قم المقدس آمد پر آپ کے لیے مشکلات پیدا کی اور آپ سے پوچھ گوچھ کی لیکن آپ نے ہمیشہ زندگی کے آخری ایام تک انقلاب اسلامی ایران کی مخالفت کو حرام قرار دیا اور ہمیشہ انقلاب اسلامی کی حمایت کی۔

وفات
آپ 26 اپریل سن 1999 9 محرم الحرام کی صبح کی نماز کے لیے وضو کرنے کے بعد مسح کرتے وقت حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے آپ وزیرہ آباد میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے 9 محرم کی شب کی مجلس آپ کی زندگی کی آخری مجلس تھی وزیر آباد سیالکوٹ میں مومنین نے آپ کو لاہور لے جان سے پہلے نماز جنازہ کا اہتمام ہوا وزیر آباد میں حجت الاسلام علامہ موسی بیگ نجفی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور سیالکوٹ ایسی جگہ جہاں سالہا خطاب فرماتے آئے ہیں اور اس دن بھی فرمانا تھا وہاں نماز جنازہ علامہ فیض کرپالوی نے پڑھائی اور اس کے بعد ہزاروں چاہنے والوں کی سسکیوں میں آپ کو وداع کیا گیا اور 10 محرم الحرام آپ کے گھر پاکستان کی مرکزی دینی درس گاہ حوزہ علمیہ جامعہ المنتظر لاہور تک فضا غم آلود تھی حضرت آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی حفظہ اللہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس کے بعد وہی پہ آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔

شیخ الجامعہ علامہ اختر عباس نجفی رہ کی 22 ویں برسی پر مختصر حالات زندگی
تحریر: حجۃ الاسلام و المسلمین سید حسن رضا نقوی قم المقدسہ

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .