حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مجمع علماء و خطباء حیدر آباد دکن ہندوستان کی جانب سے جاری بیانیہ میں کہا کہ جنت البقیع صدر اسلام سے مسلمانوں کا مشہور قبرستان ہے جسے بقیع الغرقد بھی کہتے ہیں جو مسجد نبوی سے کچھ دور اور مدینہ منورہ کے وسط میں واقع ہے رسول خدا کی حیات اور آپ کی وفات کے بعد ہی سے یہاں خاندان رسول اورصحابہ دفن ہوتے چلے آرہے ہیں۔ انہی عظیم مدفون شخصیات کی وجہ سے قبرستان جنت البقیع کی اسلامی تاریخ میں بڑی اہمیت ہے یہاں خاندان اہل بیت ،ازواج نبی اور صحابہ کرام جیسی اسلام کی ممتاز شخصیات دفن ہیں شیعوں کے چار امام حضرت امام حسن ،امام زین العابدین، امام محمد باقراور امام جعفر صادق سلام اللہ علیہم کے علاوہ مظلومہ کونین سیدہ نسائے عالمین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی آرامگاہ بھی یہیں ہے۔آج سے ۱۰۰ سال پہلے تک یہاں ان ہستیوں کے مزار پر قیمتی ضریحیں نصب تھیں ،ان پر قبوں کا سایبان تھا عمارتیں بنی ہوئی تھیں اور قبروں پر کندہ تختیاں وہاں مدفون ہستیوں کی تاریخ اور اسلامی ہنر کا شاہکار نمونہ تھیں۔
مگر افسوس ابن تیمیہ و ابن قیم سے متاثر محمد بن عبد الوہاب کے نظریات کے ہانمی وہابیوں اور سعودی حکومت نے نجد کے قاضی القضاۃ ابن بلہید اور بظاہر بعض علمائے مدینہ [لعنت اللہ علیہم ]کے فتوے اور ان کے اشارے پر پہلے مکہ مکرمہ میں جنت المعلی کے مزارات پھر اسے کے بعد ۸/شوال ۱۳۴۴ ہجری قمری میں مدینہ کے مشہور قبرستان جنت البقیع کے مزارات کو مسمار کرکے تمام امت مسلمہ کے قلوب کو جریحہ دار کردیا ۔ آج اس منحوس سانحہ کو ۹۷سال ہوگئےمگر افسوس اسلامی مملکتوں اور عام مسلمانوں نے سوائے گریہ و زاری کے آج تک ان مزارات کی تعمیر کیلئے کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا ۔اس وحشیانہ عمل سے وہابیوں کا مقصد یہ ہے وہ اپنے آقا یہود و نصاری کے اشاروں پر اسلام کے آثار مٹادیں اور تاریخ کو مسخ کردیں مگر ہم ہر سال ۸ شوال کو اس سانحہ کی یاد تازہ کرتے ہیں اور اس وقت تک کرتے رہیں گے جب تک دوبارہ جنت البقیع کے مزارات تعمیر کا نہ ہوجائیں اور یہ داغ امت مسلمہ کے دامن سے دھل نہ جائے۔
مجمع علماء و خطباء حیدر آباد دکن تمام امت مسلمہ بالخصوص مراجع کرام اور علمائے اسلام کو اس سانحہ کی تسلیت پیش کرتے ہیں اور اس ظلم عظیم کی پر زور مذمت کرتے ہوئے مومنین سے گذارش کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کو جنت البقیع اور وہاں مدفون اسلامی کی نامور ہستیوں کی تاریخ بتاتے رہیں ۔مجلس سیمینار کے ذریعہ یا کویز ،بروشر، مضمون، کتاب کے ذریعہ یا پوسٹر، انفوگرافیک یا موشن گرافیک کے ذریعہ یا چھوٹے بچوں سے ڈرائینگ کلرنگ وغیرہ کرواکر طرح طرح سے اس واقعہ کی یاد کو زندہ رکھیں۔