۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
عباس ثاقب

حوزہ/عباس ثاقبؔ صاحب نعت کی عقیدت و حقیقت سے معمور دنیا میں اپنے اسلوب کے ساتھ اپنی مستند و ثقہ شاعری جس میں فن پر گرفت اور مضامین کی نورانیاں جلوہ گر ہیں سفر کرتے ہیں لہٰذا مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ عباس ثاقبؔ صاحب پورے شعور اور ادراک کی معراج پر نعت کہنے کا سلیقہ رکھتے ہیں اور اپنے مافی الضمیر کو ابلاغ کی معراجِ مقصود تک پہنچانے کا قرینہ ان کے ہاں وفور کے ساتھ موجود ہے۔ بعض جگہوں پر نہ صرف ان کا فکری تنوع بلکہ قدرتِ کلام تحیر خیز نظر آتے ہیں،تازگی اور اچھوتا پن ایسا ہے جو آپ کے اطراف و نواح کے کم شاعروں کے حصے میں آیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسیl
فکر و خیال: جناب عباس ثاقب زید عزہ

عباس ثاقبؔ صاحب نعت کی عقیدت و حقیقت سے معمور دنیا میں اپنے اسلوب کے ساتھ اپنی مستند و ثقہ شاعری جس میں فن پر گرفت اور مضامین کی نورانیاں جلوہ گر ہیں سفر کرتے ہیں لہٰذا مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ عباس ثاقبؔ صاحب پورے شعور اور ادراک کی معراج پر نعت کہنے کا سلیقہ رکھتے ہیں اور اپنے مافی الضمیر کو ابلاغ کی معراجِ مقصود تک پہنچانے کا قرینہ ان کے ہاں وفور کے ساتھ موجود ہے۔ بعض جگہوں پر نہ صرف ان کا فکری تنوع بلکہ قدرتِ کلام تحیر خیز نظر آتے ہیں،تازگی اور اچھوتا پن ایسا ہے جو آپ کے اطراف و نواح کے کم شاعروں کے حصے میں آیا ہے۔ 

ہم بھی جائیں گے بلاوا اگر آ جائے تو
کوئی خوشبو کوئی پیغام ہوا لائے تو

میں نے دریائے مودّت سے اسے سینچا ہے
اب یہ گلشن مرے ادراک کا مرجھائے تو

آسماں بھی اسے پہلو میں دکھائی دے گا
ترے بستر پہ گھڑی بھر کوئی سو جائے تو

روبرو آ کے زیارت بھی وہ کروائیں گے
ان سے ملنے کی تڑپ آنکھ کو تڑپائے تو

بے ارادہ تری چوکھٹ کی طرف دیکھتا ہے
دل اگر شورشِ آلام سے گھبرائے تو

میرے چہرے پہ پڑا راہِ مدینہ کا غبار
اب یہ مہتاب کسی طور سے گہنائے تو

خود بخود نعت اتر آتی ہے ورنہ ثاقبؔ!
ساتھ دیتے نہیں اظہار کے پیرائے تو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عباس ثاقبؔ

تبصرہ ارسال

You are replying to: .