۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
نائیجیریا میں مسلح افراد کے ہاتھوں 140 طلبہ کا اغوا

حوزہ/ نائجیریا میں اسکول پر حملہ اور بچوں کا اغوا معمول کی بات بن چکی ہے۔ تازہ ترین واقعے میں نائیجیریا کے شمال مغربی علاقے میں مسلح افراد نے 140 طلبہ کو اغوا کرلیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ابوجا/نائجیریا میں اسکول پر حملہ اور بچوں کا اغوا معمول کی بات بن چکی ہے۔ تازہ ترین واقعے میں نائیجیریا کے شمال مغربی علاقے میں مسلح افراد نے 140 طلبہ کو اغوا کرلیا۔

اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اسکول انتظامیہ کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں نے فائرنگ شروع کی اور کڈونا میں بیتھل باپٹسٹ ہائی اسکول پر دھاوا بول دیا اور سیکیورٹی گارڈز کو قابو میں کر کے وہاں موجود 165 میں سے اکثر بچوں کو اغوا کرلیا۔

نائیجیریا میں مسلح افراد کے ہاتھوں 140 طلبہ کا اغوا

رپورٹ کے مطابق،اسکول انتظامیہ نے کہا ہے کہ حملہ آوروں نے فائرنگ شروع کی اور کڈونا میں بیتھل باپٹسٹ ہائی اسکول پر دھاوا بول دیا اور سیکورٹی گارڈز پر قابو پالیا۔انہوں نے کہاکہ مسلح افراد نے اسکول میں موجود 165 میں سے اکثر بچوں کو اغوا کرلیا۔

اسکول کے ایک استاد ایمانوئیل پاول نے کہا کہ حملہ آوروں نے 140 بچوں کو اغوا کرلیا جبکہ صرف 25 طلبہ بچ گئے ” ہمیں تاحال کچھ معلوم نہیں ہے کہ بچے کہاں ہیں“۔

ریاست کڈونا کی پولیس کے ترجمان محمد جلیگ نے اسکول پر حملے کی تصدیق کی لیکن مغوی بچوں کی تعداد لیکن دیگر تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا۔

انہوں نے کہاکہ پولیس ملزمان کے تعاقب میں ہے ” ہم ریسکیو مشن پر ہیں اور اب تک ایک خاتون استاد سمیت 26 افراد کو بازیاب کروایا گیا ہے“۔

یاد رہے کہ نائیجیریا میں مسلح گینگز اکثر دور دراز گاو¿ں میں حملہ آور ہوتی ہیں جہاں لوٹ مار، مویشیوں کی چوری کے ساتھ ساتھ تاوان کے لیے اسکول کے بچوں اور شہریوں کو اغوا کیا جاتا ہے۔

نائیجیریا میں مسلح افراد کے ہاتھوں 140 طلبہ کا اغوا

رپورٹ کے مطابق نائیجیریا میں دسمبر 2020 سے اب تک ایک ہزار سے زائد طلبہ کو اغوا کیا گیا اور ان میں سے اکثر کو مقامی عہدیداروں سے مذاکرات کے بعد رہا کر دیا گیا جبکہ کئی اب بھی ان کی حراست میں ہیں۔

مسلح افراد مضافات میں قائم اسکولوں اور کالجوں کو نشانہ بناتے ہیں جہاں بچوں کی بڑی تعداد ہوتی ہے لیکن سیکیورٹی کے ناقص انتظامات ہوتے ہیں، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملزمان کارروائی کرتے ہیں اور بچوں کو باآسانی اپنے ٹھکانوں میں پہنچا کر تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں۔

جنگلات میں گینگز کے ٹھکانے

نائیجیریا میں اسکول کے بچوں کے اغوا کا پہلا واقعہ 2014 میں دنیا کے سامنے آیا تھا جب بوکو حرام نے شمال مشرقی ریاست بورنو کے علاقے چیبوک کے ایک اسکول سے تقریباً 300 بچوں کو اغوا کیا تھا۔

بچوں کے اغوا کے حالیہ واقعات شمال کی 6 مختلف ریاستوں میں پیش آچکے ہیں جہاں سرکاری اسکولوں کو اس طرح کے حملوں سے بچنے کے لیے بند کرنے کا سوچا جا رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق بیتھل باپٹسٹ ہائی اسکول ایک مخلوط تعلیمی ادارہ ہے، جو 1991 میں ریاستی دارالحکومت کڈونا کے ضلع چیکون کے دور دراز گاؤں میں کالج کے طور پر باپٹسٹ چرچ کی جانب سے بنایا گیا تھا۔

خیال رہے کہ نائیجیریا کے شمال مغرب اور وسطی علاقوں میں اغوا کے واقعات صدر محمد بوہاری اور ان کی سیکیورٹی فورسز کے لیے ایک چینلج بن چکے ہیں جہاں ایک دہائی سے دہشت گردوں کے خلاف جنگ جاری ہے۔

مسلح گینگز کو مقامی طور پر ڈاکو کہا جاتا ہے جو شمال مغربی اور وسطی نائیجیریا میں گاؤں میں لوٹ مار، مویشیوں اور شہریوں کو تاوان کے لیے اغوا کرکے شہریوں کو دہشت زدہ کرتے ہیں۔

دسمبر 2020 میں حملے سے قبل تک اسکولوں کے 730 بچے اغوا ہوچکے تھے، گینگز اکثر دور دراز علاقوں میں اسکولوں کو نشانہ بناتے ہیں جہاں بچوں کی حفاظت کے ناقص انتظامات ہیں جبکہ اغوا کار بچوں کو قریبی جنگلات میں لے جاتے ہیں۔

رواں برس 20 اپریل کو مسلح افراد نے نائیجیریا کے شمال مغربی علاقےمیں گرین فیلڈ یونیورسٹی پر دھاوا بول دیا تھا اور 20 طلبہ کو اغوا کرلیا تھا جبکہ ایک انتظامی عہدیدار کو حملے میں مار دیا گیا تھا۔

نائیجیریا میں مسلح افراد کے ہاتھوں 140 طلبہ کا اغوا

اغوا کاروں نے چند روز بعد 5 بچوں کو قتل کردیا تھا تاکہ اہل خانہ اور حکومت کو تاوان کے لیے مجبور کیا جائے تاہم دو روز قبل 14 بچوں کو رہا کردیا گیا۔

بعد ازاں مئی کے آخر میں ریاست نائیجر میں ایک اسکول سےسیکڑوں بچوں کو اغوا کرلیا گیا تھا، نائیجر کے ریاستی پولیس ترجمان واسیو عبدیودن کا کہنا تھا کہ حملہ آور موٹرسائیکلوں پر آئے اور اندھادھند فائرنگ شروع کردی، جس کے نتیجے میں ایک شہری جاں بحق اور دوسرا زخمی ہوگیا۔

اسکول کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا تھا کہ حملہ آوروں نے ابتدائی طور پر 100 سے زائد بچوں کو اٹھایا تھا لیکن بعد میں انہوں نے چھوٹے بچوں کو واپس بھیج دیا جن کی عمریں 4 سے 12 برس کے درمیان تھی۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .