۱۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۴ شوال ۱۴۴۵ | May 3, 2024
مولانا سید علی حیدر عابدی

حوزہ/ کل تک جو شیعیت اور حسینیت کے خطرناک کٹر دشمن تھے آج وہی شیعوں اور عزاداروں کی حفاظت و سالمیت کی ذمہ داری کی بات کر رہے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مبارکپور،اعظم گڑھ/ کربلا آج بھی درسگاہ انسانیت ہے۔ کربلا آج بھی ظلم و ناانصافی کے خلاف کھلا ہوا احتجاجی نعرہ ہے۔کربلا کے عالمگیر انقلابی پیغام نے دنیا کو یہ سونچنے اور سمجھنے پر مجبور کردیا ہے کہ حق و باطل میں تمیز کیسے کی جاتی ہے۔اس کی ایک تازہ مثال اور بانگی دنیا نے حال ہی میں بڑے غور اور غیرت سے بار بار دیکھی کہ افغانستان میں طالبان کے ذریعہ جن لوگوں نے حسینی پرچم کو اتارا تھا وہی معذرت خواہ ہو کر ادب و احترام کے ساتھ حسینی سیاہ پرچم لگاتے ہوئے نظر آئے۔اور شیعوں کی مجلسوں میں ان کے مذہبی و سیاسی رہنما شریک بھی ہوئے ۔اب دنیا خود سمجھے کہ طاقت جسے سدھار نہ سکی پیغام کربلا نے اسے جھکنے پر مجبور کر دیا۔ جو خونخوار و جنگجو کہے جاتے تھے اب وہ خود دیندار و صلح جو بن گئے۔کل تک جو شیعیت اور حسینیت کے خطرناک کٹر دشمن تھے آج وہی شیعوں اور عزاداروں کی حفاظت و سالمیت کی ذمہ داری کی بات کر رہے ہیں ۔اس کو کہتے ہیں : عدو شود سبب خیر گر خدا خواھد۔

پیغام کربلا نے اسے جھکنے پر مجبور کر دیا، جو خونخوار و جنگجو کہے جاتے تھے، مولانا سید علی حیدر عابدی

ان خیالات کا اظہار حجۃ الاسلام مولانا سید علی حیدر عابدی سہارنپوری نےصحن امامباڑہ محلّہ پرانی بستی بکھری مبارکپور میں اراکین انجمن عباسیہ و منتظمہ کمیٹی کی جانب سے منعقدہ سالانہ خمسۂ مجالس بیاد شہیدان کربلا و اسیران کربلا سلسلہ کی چوتھی مجلس کو خطاب کرتے ہوئے کیا۔ 

مولانا علی حیدر عابدی نے ’’ کربلا اور اصلاح معاشرہ ‘‘ موضوع کے تحت قرآن مجید کے سورہ توبہ کی ایک سو گیارہویں آیت کو سرنامہ ٔ کلام قرار دیتے ہوئے مزید فرمایا کہ اللہ رب العالمین نے ان مومنین کے جانوں اور مالوں کو جنت کے بدلہ میں خرید لیا ہے جنھوں نے راہ خدا میں دشمنوں کو قتل کیا اور آخر میں خود قتل ہوگئے ۔قرآن کی اس آیت کے مصداق حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب و انصار ہیں جو میدان کربلا میں دلیری کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے شھید ہو گئے۔ 

پیغام کربلا نے اسے جھکنے پر مجبور کر دیا، جو خونخوار و جنگجو کہے جاتے تھے، مولانا سید علی حیدر عابدی

اراکین انجمن عباسیہ و منتظمہ کمیٹی کی جانب سے خمسۂ مجالس کا اس سال یہ آٹھواں دور ہے ۔جس کا آغاز روزانہ ساڑھے آٹھ بجے شب میں سوز خوانی سے ہوا جس میں خیرات الحسن ،سکندر علی ، محمد ،ہاشم رضا وغیرہ نے موثر انداز میں سوز خوانی کی ۔

پیغام کربلا نے اسے جھکنے پر مجبور کر دیا، جو خونخوار و جنگجو کہے جاتے تھے، مولانا سید علی حیدر عابدی

اس موقع پر حجۃ الاسلام الحاج مولانا ابن حسن املوی واعظ،حجۃ الاسلام مولانا کرار حسین اظہری استاد مدرسہ باب العلم ،حجۃ الاسلام مولانا محمد مھدی گھوسوی استاد مدرسہ باب العلم ، سید شان عباس ڈی ایس پی اعظم گڑھ،جاوید خان ،جعفر حیدر، ماسٹر شجاعت ،حسنین اختر ،علی رضا ، محمد عباس سمیت کثیر تعداد میں مومنین و مومنات نے شرکت کی ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .