تحریر: ابو جواد
حوزہ نیوز ایجنسی। جن لوگوں نے العالم ٹی وی کی جانب سے سید حسن نصر اللہ سے ہوئی گفتگو کو دیکھا یا سنا ہے انہیں بہت سے سوالات کا جواب مل چکا ہے۔ اس لئے کہ یہ وہ گفتگو ہے جس میں قائد حریت نے اہم مسائل کوبیان کیا ہے ان اہم مسائل میں اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے صہیونی رجیم کی دھمکیاں بھی ہیں جن کے بارے میں حسن نصر اللہ کا خیال ہے کہ یہ مبالغہ آمیز اور کھوکھلی ہیں جنکی کوئی حیثیت نہیں ہے اس لئے کہ یہ رجیم اس سے کہیں عاجز و مجبور ہے کہ ایران کے خلاف کوئی اقدام کرے یہ خوب جانتی ہے کہ ایران ان باتوں کو مذاق میں نہیں لیتا ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جس سے امریکہ کے سب سے دیوانے اور سب سے زیادہ شدت پسند صدر یعنی ٹرنپ کی بھی واقفیت حاصل ہے اور اچھی طرح پتہ ہے کہ ایران کے خلاف کسی بھی ایکشن کا ری ایکشن کیا ہو سکتا ہے؟
اب جہاں تک اسرائیل کی جانب سے حزب اللہ کی میزائلوں کو نابود کر دینے کی دھمکی کی بات ہے تو حسن نصر اللہ نے اس بارے میں کہا کہ اسرائیل کے پاس اگر اتنی طاقت ہوتی تو وہ اپنے اس مشن کے حصول میں ذرا بھی تامل نہ کرتا حسن نصر اللہ نے اس بارے میں کہا : جب صہیونی رجیم کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ ہم حزب اللہ کی میزائلوں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں ہمیں ان میزائلوں کو ختم کرنا ہے تو یہ چیز ایک مکمل جنگ کے وجود میں آنے کا سبب ہے ، یہ لوگ کس طرح اپنے ہدف تک مار کرنے والی میزائلوں کو تباہ کر سکتے ہیں ؟ جہاں تک جنگ کی بات ہے تو یاد رکھیں یہ کام جنگ کے ذریعہ ہونے والا نہیں ہے ، کیا جب اسرائیل یہ کہتا ہے کہ ہم حزب اللہ کی میزائلوں کو ختم کر دیں گے تو کیا وہ انکی تعداد کو جانتا ہے اسے پتہ ہے یہ کتنی ہیں ؟
یہاں پر جو چیز قابل غور ہے وہ یہ کہ حزب اللہ کے جنرل سیکریٹری نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ حزب اللہ کے پاس ایک لاکھ جنگجو موجود ہیں اگر اسرائیل کی جانب سے لبنان کی سرحدوں کو لانگھنے کی کوشش ہوتی ہے تو اسرائیلیوں کو ایسا سرپرائز ملے گا کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے اسرائیلی حملے کے جواب میں حزب اللہ کی جانب سے جو جواب دیا جائے گا وہ اسرائیل کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا ان میں سے محض ایک چیز یہ ہے کہ اسرائیل کے ڈرونز کے تعاقب کے لئے جب مزاحمتی محاذ کا دفاعی سسٹم فعال ہو جائے گا تو کیا ہوگا یہ وہ چیز ہے جس نے صہیونی سربراہوں کے دلوں میں وحشت و خوف کو دوبالا کر دیا ہے۔
حزب اللہ کے جنرل سکریٹری نے ان باتوں کے علاوہ کچھ اور اہم موضوع کی طرف اشارہ کیا اور وہ ہے صہیونی رجیم سے متحدہ امارات، و بحرین کے تعلقات کی بحالی اور اس کی بنا پر متحدہ مزاحمتی محاذ کو لاحق خطرات ،حسن نصر اللہ نے اس حساس مسئلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: وہ ممالک جنہوں نے صہیونی رجیم سے اپنے تعلقات کو سازگار بنا لیا ہے اور میڈیا کے ذریعہ اور اقتصادی اعتبار سے انہوں نے اسرائیل کو فائدہ پہنچایا ہے لیکن یہ لوگ یاد رکھیں کہ عسکری میدان میں یہ کوئی مدد نہیں پہنچا سکیں گے ، اس لئے کہ متحدہ امارات جس نے اپنی تشکیل سے لیکر اب تک دسیوں ارب اسلحہ اسرائیل سے خریدا تھا جب اسکا مقابلہ انصار اللہ سے ہوا تو پہلے ہی مقابلے میں اسکی چیخیں نکل گئیں ۔
سید حسن نصر اللہ نے امارات سے مطالبہ کیا کہ یمن کی سرزمین سے نکل جائے قائد حریت نے متحدہ امارات کو متنبہ کرتے ہوئے نصیحت کی ” اس مسئلہ کا حل بہت ہی آسان ہے اور وہ یہ ہے کہ میدان جنگ سے نکل جاو اور اس جنگ میں مداخلت نہ کرو تم نے ہمارے حدود کو لانگھا تو ہمیں بھی جواب دینا پڑا تم تجاوز کو چھوڑ دو اپنی حد میں رہو پیچھے ہٹ جاو ہمیں بھی تم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ، وہ چیز جو امارات کی بقا کو یقینی بنائے گی وہ انکا پیچھے ہٹنا ہے امارات کو اپنی حفاظت کے لئے اسلحوں کی ضرورت نہیں ہے ، امارات نے اپنی تاسیس سے لیکر اب تک دسیوں ارب ڈالر کی میزائلیں خریدی ہیں فائٹر طیارے خریدے ہیں فوجی ٹکنالوجی خریدی ہے اور انہیں بڑے بڑے انباروں میں بھر دیا ہے لیکن یہ اسلحوں کے انبار اسکی حفاظت نہیں کرسکے ہیں اور نہ ہی کر سکتے ہیں ، دسیوں یا سیکڑوں ارب ڈالر کو ملک کی حفاظت کی خاطر کام آنے والے وسائل کی خریداری میں خرچ کرنے سے کسی ملک کا تحفظ نہیں ہوتا ہے بلکہ امارات کو چاہیے کہ وہ اپنے بڑے بھائی سعودی عرب سے اور اس کے اسٹراٹیجکل حلیف اسرائیل سے عبرت حاصل کرے کیا اسلحوں کے انبار انکے تحفظ کو یقینی بنا سکے؟
حزب اللہ کے جنرل سکریٹری نے آگے اس دعوے کے سلسلہ سے کہ “لبنان ایران کے زیر تسلط ہے ” کہا یہ ایک ایسا نعرہ ہے جو میڈیا نے پھیلایا ہے اور اسکا مقصد مزاحمتی محاذ کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کو ہوا دینا ہے حسن نصر اللہ نے اس بارے میں کہا : آج امریکہ کے سفیر کی جانب سے ہر جگہ انٹرویو میں اور ٹی وی کے سامنے لبنان کے انتخابات کا مسئلہ اٹھایا جا رہا ہے ہر جگہ لبنان کے داخلی مسائل کو لیکر دخالت ہے جبکہ ایران کی بات اگر دیکھی جائے تو نہ تو ایرانی سفارت کی جانب سے اور نہ ہی کسی ایرانی اہلکار کی جانب سے لبنان اور اس کے انتخابات کو لیکر ایک چھوٹی سی دخالت بھی نہیں کی جا رہی ہے ۔ بیروت میں امریکہ کا سفارت خانہ پورے خطے میں سی آئی اے کے مرکزی دفتر کے طور پر کام کر رہا ہے یہ سفارت خانہ محض لبنان تک محدود نہیں ہے بلکہ بیروت میں بنایا گیا یہ سفارت خانہ لبنان کی سرحدوں سے ماوراء ہو کر اپنا کام کر رہا ہے اسے آپ کیا کہیں گے ۔
نصر اللہ نے سعد الحریری کے فیصلے کی جانب ایک گریز کرتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ انتخابات میں المستقبل پارٹی حصہ نہیں لے رہی ہے اور کہا کہ المستقبل جیسی بڑی پارٹی کا انتخابات سے غیر حاضر رہنا یہ وہ چیز ہے جس کا اثر لبنان کے انتخابات میں دیکھنے کو ملے گا ۔