حوزہ نیوز ایجنسی نے اخبار کابل ٹائمز کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ افغانستان کے شہر مزار شریف میں شیعہ مسجد میں وہابی تکفیری دہشت گردوں کے بم دھماکے کے نتیجے میں اب تک ۱۶ روزہ دار نمازی شہید اور 65 زخمی ہوگئے ہیں، جن میں سے 32 کی حالت تشویش ناک ہے۔
اطلاعات کے مطابق مزار شریف میں شیعوں کی سب سے قدیم اور بڑی مسجد سہ دوکان پر وہابی تکفیری دہشت گردوں نے بم سے حملہ کردیا ، جس کے نتیجے میں ۱۶ نمازی شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے ہیں۔ مؤمنین نماز ظہر ادا کررہے تھے۔
مزار شریف میں ابو علی سینا بلخی اسپتال کے سربراہ غوث الدین انوری کا کہنا ہے کہ اسپتال میں بہت زخمی لائے گئے ہیں جن میں بعض کی حالت تشویش ناک ہے اور شہداء کی تعداد میں اضآفہ ہوسکتا ہے۔ طالبان سکیورٹی فورسز نے علاقہ کو محاصرے میں لے لیا ہے۔ اس سے قبل افغانستان کے صوبوں ننگر ہار اور قندوز میں بھی دھماکوں کی خبریں موصول ہوئي تھیں۔ مزار شریف میں مسجد میں جمعرات کو ہونے والے اس دھماکے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے قبول کی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دولت اسلامیہ نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’خلافت کے سپاہی ایک بیگ مسجد کے اندر لے جانے میں کامیاب ہو گئے تھے اور جب یہ نمازیوں سے بھر گئی تو دور سے کھڑے ہو کر دھماکہ کر دیا۔‘ مزار شریف میں ہونے والے اس دھماکے کے بعد سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مسجد میں سے کس طرح لوگوں کو نکال کر ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔
بلخ صوبے کے محکمہ صحت کے ترجمان احمد ضیا زندانی نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ ’خون اور خوف ہر طرف ہے، لوگ ہستپال میں اپنے رشتہ داروں کو تلاش کرتے ہوئے چلا رہے تھے۔‘ انہوں نے بتایا کہ اس دھماکے میں 12 افراد ہلاک اور58 زخمی ہوئے ہیں جن میں سے 32 کی حالت تشویش ناک ہے۔
افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اچانک دھماکوں کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔اس سے قبل منگل کو بھی افغانستان میں یکے بعد دیگرے دو بم دھماکے ہوئے تھے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ دھماکے کابل سے کئی کلو میٹر دور شیعہ آبادی والے علاقے دشتِ برچی میں واقع عبدالرحیم شہید ہائی سکول کے اندر اور ممتاز ایجوکیشن سینٹر کے قریب ہوئے۔
ان دھماکوں میں کم از کم چھ افراد ہلاک ہوئے جن میں طلبہ بھی شامل ہیں۔ دوسرا دھماکہ اس وقت ہوا جب امدادی کارکن پہلے دھماکے سے زخمیوں کو ہسپتالوں میں لے جانے کے لیے پہنچے۔
سکول کے ایک طالب علم، سعید رحمت اللہ حیدری نے اس حوالے سے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ ’ہمارے کچھ دوست ہاتھوں سے محروم ہوگئے ہیں، جب کہ کچھ خون میں لت پت تھے۔‘