۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
رہبر انقلاب اسلامی

حوزہ/ یہ شہادت ایسی مصیبت نہیں ہے کہ کسی زمانے میں رونما ہوئي ہو اور اب ہم اس کی یاد میں آنسو بہائیں! نہیں، یہ مصیبت، ہر زمانے کی ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام کو شہید کرنے کی مصیبت، اس "تھدّمت واللہ ارکان الھدی" نے صرف اس زمانے کو خسارہ نہیں پہنچایا، پوری تاریخ انسانی کے لیے خسارہ پیدا کر دیا۔

رہبر انقلاب اسلامی کی تقریر سے اقتباس

حوزہ نیوز ایجنسییہ شہادت ایسی مصیبت نہیں ہے کہ کسی زمانے میں رونما ہوئي ہو اور اب ہم اس کی یاد میں آنسو بہائیں! نہیں، یہ مصیبت، ہر زمانے کی ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام کو شہید کرنے کی مصیبت، اس "تھدّمت واللہ ارکان الھدی" نے صرف اس زمانے کو خسارہ نہیں پہنچایا، پوری تاریخ انسانی کے لیے خسارہ پیدا کر دیا۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اس تاریخ سے پچیس سال پہلے مدینے کی عورتوں سے فرمایا تھا: اگر علی کو بر سر اقتدار لایا گيا ہوتا تو "لسار بھم سیراً سُجُحاً" سجح کا مطلب ہوتا ہے ہموار، یعنی حضرت، لوگوں کی زندگي کے سفر کو ہموار کر دیتے۔ "لا یکلِمُ خُشاشہ" وہ ذرہ برابر نقصان نہ ہونے دیتے، یعنی اسلامی حکومت کی طاقت اور حکمرانی کے جذبے کو اسلامی معاشرے کے جسم پر کسی بھی طرح کا زخم لگانے نہیں دیتے، وہ اسلام کو آگے بڑھاتے اور ہر طرح کے نقصان کا سد باب کرتے۔
پیغمبر اکرمۖ کے زمانے کا اسلامی معاشرہ کیا تھا؟ دس سال تک صرف ایک شہر تھا۔ کچھ ہزار افراد پر مشتمل ایک چھوٹا سا شہر۔ پھر جب مکے اور طائف کو فتح کر لیا تو انتہائي محدود ثروت والا ایک محدود علاقہ۔ غربت ہر طرف پھیلی ہوئي تھی اور وسائل بہت ہی کم تھے۔ اسلامی اقدار کی بنیاد ایسے ماحول میں رکھی گئي۔ جس دن پیغمبر اکرم اس دنیا سے گئے ہیں، تب سے اب تک پچیس برس ہوئے ہیں۔ پچس سال کے اس عرصے میں اسلامی ملک کی وسعت دو تین اور دس گنا نہیں بلکہ سیکڑوں گنا بڑھ چکی ہے۔ مطلب یہ کہ جس دن امیر المومنین کو حکومت حاصل ہوئي، اس دن وسطی ایشیا سے لے کر شمالی افریقا یعنی مصر تک کا علاقہ اسلامی حکومت کے دائرۂ اختیار میں تھا۔ ابتدائي اسلامی حکومت کے زمانے کی دو بڑی ہمسایہ سلطنتیں یعنی ایران اور روم میں سے ایک پوری طرح سے تباہ ہو چکی تھی، جو کہ ایران کی سلطنت تھی۔ اس کے تمام علاقے اسلام کے اختیار میں آ چکے تھے۔ جبکہ سلطنت روم کے زیادہ تر علاقے بھی، جیسے شام، فلسطین، موصل اور دوسری جگہیں جو تھیں، اسلام کے زیر حکومت آ گئی تھیں۔ اتنا وسیع و عریض علاقہ، اسلام کے اختیار میں تھا۔ بنابریں بہت زیادہ ثروت وجود میں آ چکی تھی۔ اب غربت، محرومی اور کھانے پینے کی کمی نہیں تھی۔ سونے کے سکے رائج ہو گئے تھے۔ پیسہ زیادہ ہو گيا تھا، بے حساب دولت و ثروت آ چکی تھی۔ لہذا اسلامی مملکت دولتمند ہو چکی تھی۔ بہت سے لوگوں کو حد سے زیادہ عیش و آرام حاصل ہو گيا تھا۔
ان کچھ برسوں میں کچھ لوگوں نے بیت المال سے خود سرانہ طور پر پیسے نکالے تھے۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: میں ان سب کو بیت المال میں واپس لوٹاؤں گا، یہاں تک کہ اگر میں یہ دیکھوں کہ تم نے انھیں اپنی عورتوں کا مہر قرار دے دکھا ہے یا اپنے لیے کنیز خرید لی ہے، تب بھی میں انھیں بیت المال میں واپس لوٹاؤں گا۔ لوگوں اور اکابرین کو جان لینا چاہیے کہ میرا طریقۂ کار یہ ہے۔
آج امیر المومنین کی شہادت کا دن ہے۔ میں ان کے مصائب بیان کرنا چاہتا ہوں۔ سلام ہو آپ پر اے امیر المومنین! کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو آج نجف میں امیر المومنین کی قبر اطہر کے قریب ہیں اور قریب سے ان کی قبر کی زیارت کر سکتے ہیں اور انھیں سلام کر سکتے ہیں۔ ہم بھی دور سے ایک بار پھر عرض کرتے ہیں: السّلام علیک یا امیرالمؤمنین، السّلام علیک یا امام المتقین، السّلام علیک یا سیّد ‏الوصیین۔ جب انیسویں رمضان کی سحر کو وہ عظیم سانحہ رونما ہوا تو ہاتف غیبی کی آواز ہر جگہ گونجی: "تھدّمت واللہ ارکان الھدی." کوفے اور پھر بتدریج بعض دیگر شہروں کے لوگ، جن تک اس وقت یہ خبر پہنچ سکتی تھی، مسلسل اضطراب میں تھے۔ امیرالمومنین کوفے میں بہت زیادہ مقبول اور محبوب تھے۔ سب کو علی سے عقیدت تھی۔ عورتیں، مرد، بچے، بڑے خاص کر امیر المومنین کے بعض قریبی صحابی بہت زیادہ پریشان اور مضطرب تھے۔ ان کی شہادت سے ایک دن پہلے لوگ امیر المومنین کے گھر کے اطراف اکٹھا ہو گئے تھے، روایت کے مطابق امام حسن علیہ السلام نے دیکھا کہ لوگ بہت زیادہ پریشان ہیں اور امیر المومنین کی عیادت کے مشتاق ہیں تو انھوں نے فرمایا: بھائيو اور مومنین! امیر المومنین کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ آپ لوگ ان سے نہیں مل سکتے۔ لہذا آپ چلے جائيے! انھوں نے لوگوں کو ہٹا دیا اور وہ چلے گئے۔ اصبغ ابن نباتہ کہتے ہیں: میں نے حتی الامکان کوشش کی لیکن دیکھا کہ میں امیر المومنین کے گھر کے پاس سے نہیں جا سکتا، لہذا میں رکا رہا۔ تھوڑی دیر بعد امام حسن علیہ السلام، گھر سے باہر نکلے اور جیسے ہی ان کی نظر مجھ پر پڑی، انھوں نے کہا: اصبغ! کیا تم نے سنا نہیں کہ میں نے کہا چلے جاؤ؟ ان سے ملاقات نہیں ہو سکتی۔ میں نے کہا: اے فرزند رسول! مجھ میں اب سکت نہیں ہے۔ میں یہاں سے نہیں جا سکتا۔ اگر ممکن ہو تو میں ایک لمحے کے لیے چل کر امیر المومنین کو دیکھ لوں۔ امام حسن علیہ السلام گھر کے اندر گئے اور پھر باہر آ کر مجھے اندر جانے کی اجازت دی۔ اصبغ کہتے ہیں: میں کمرے میں داخل ہوا، دیکھا کہ امیرالمومنین بستر بیماری پر پڑے ہوئے ہیں اور ان کے زخم کو پیلے کپڑے سے باندھ دیا گيا ہے۔ لیکن میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ کپڑا زیادہ پیلا ہے یا امیر المومنین کے چہرے کا رنگ؟ حضرت کبھی بے ہوش ہو جاتے اور کبھی ہوش میں آتے۔ ایک بار جب وہ ہوش میں آئے تو اصبغ کا ہاتھ پکڑا اور ایک حدیث نقل کی۔ "ارکان الہدی" جو کہا جاتا ہے، وہ اسی وجہ سے ہے۔ اپنی زندگي کے آخری لمحات میں اور اتنی شدید تکلیف میں بھی، ہدایت ترک نہیں کرتے۔ ایک طولانی حدیث ان سے بیان کی اور پھر بے ہوش ہو گئے۔ اس دن کے بعد نہ تو اصبغ ابن نباتہ اور نہ ہی امیر المومنین کے کسی دوسرے صحابی نے علی کی زیارت کی۔ علی اسی اکیسویں کی رات میں جوار رحمت الہی میں پہنچ گئے اور ایک دنیا کو سوگوار اور ایک تاریخ کو سیاہ پوش کر گئے۔

امام خامنہ ای،5 نومبر 2004

تبصرہ ارسال

You are replying to: .