۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
رہبر

حوزہ/ رہبر انقلاب اسلامی سے تاجکستان کے صدر مملکت امام علی رحمان نے ملاقات کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رہبر انقلاب اسلامی نے پیر کی شام کو تاجکستان کے صدر امام علی رحمان اور ان کے ہمراہ آئے وفد سے ملاقات میں کہا ہے کہ مختلف میدانوں میں دونوں ملکوں کے تعاون میں فروغ کی گنجائش تعاون کی موجودہ سطح سے کہیں زیادہ ہے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کے استحکام پر مبنی ایران کی پالیسی کے پیش نظر، دونوں ملکوں کے تعلقات میں بنیادی تبدیلی آنی چاہیے۔

آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایران اور تاجکستان کے گہرے تاریخی، مذہبی، ثقافتی اور لسانی اشتراکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دونوں ملکوں کو رشتہ داروں اور بھائيوں کی مانند بتایا۔

انھوں نے فارسی زبان کے فروغ کے سلسلے میں تاجکستان کے صدر کی کوششوں کو سراہا اور صدر مملکت رئيسی کے پہلے غیر ملکی دورے کی حیثیت سے تاجکستان کے سفر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ دورہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ایران کی حکومت، تاجکستان کے ساتھ تعلقات کو خاص اہمیت دیتی ہے اور پچھلے ایک برس میں دونوں ملکوں کے تعلقات کی سطح میں اضافہ ہوا ہے لیکن ابھی یہ مطلوبہ سطح سے کافی دور ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے تاجکستان کی مدد کے لیے ایران کی تکنیکی، انجینئرنگ، صنعتی اور سائنسی توانائیوں کو مہیا اور بہت کارساز بتایا اور کہا: ان گنجائشوں سے فائدہ اٹھانے اور باہمی تعاون کے سنجیدہ فروغ کے لیے مشترکہ کمیشن کو چاہئے کہ دستخط شدہ سبھی دستاویزوں کے سلسلے میں پوری سنجیدگي کے ساتھ پروگرام تیار کرے اور ٹائم فریم بنائے تاکہ انھیں عملی جامہ پہنایا جا سکے۔

آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران کی گوناگوں آب و ہوا، زمین، وسیع و عریض میدان اور صحرا، ایران میں سائنسی، تکنیکی، صنعتی پیشرفت، نالج بیسڈ کمپنیوں کی ترقی اور اسی طرح تاجکستان میں بے شمار آبی ذخائر اور کانوں کو مشترکہ تعاون کے فروغ کے اہم میدان بتایا اور کہا: پابندیوں کے باوجود، اسلامی جمہوریہ ایران نے مختلف میدانوں میں شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اگر پابندیاں نہ ہوتیں تو یہ کامیابیاں بھی حاصل نہیں ہوتیں کیونکہ پابندیاں اس بات کا موجب بنیں کہ ہم ملکی قوت اور گنجائشوں پر توجہ مرکوز کریں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے پابندی کو دیگر ملکوں کے خلاف طاقتور ممالک کا ہتھیار بتایا اور کہا: وہ چیز جو اس ہتھیار کو ناکارہ بنا دیتی ہے، وہ اندرونی قوتوں اور گنجائشوں پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ ایران اور تاجکستان کے درمیان تعاون اور یکجہتی کا ایک میدان، خطے کے مسائل اور خاص طور پر افغانستان کی صورتحال ہے۔

آپ نے کہا کہ افغانستان کے بارے میں ایران اور تاجکستان کی تشویش، مشترکہ ہے اور دونوں ہی ممالک، افغانستان میں دہشت گردی کے پھیلاؤ اور تکفیری گروہوں کے جڑ پکڑنے کی بابت تشویش میں مبتلا ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ اس وقت جو لوگ افغانستان میں بر سر اقتدار ہیں، انھیں تمام گروہوں کی شرکت سے ایک جامع اور وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل عمل میں لانا چاہیے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح ایران کی مسلح فورسز کے جنرل اسٹاف کے چیف کے حالیہ دورۂ تاجکستان اور اس ملک میں ڈرون طیاروں کی تعمیر کے کارخانے کے افتتاح کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، اس طرح کے تعاون کو بہت اہم بتایا اور کہا: آج ملکوں کی سلامتی میں ڈرون طیاروں کا اہم کردار ہے۔

اس ملاقات میں ایران کے صدر سید ابراہیم رئيسی بھی موجود تھے۔ اس موقع پر تاجکستان کے صدر امام علی رحمان نے اپنے دورۂ تہران اور رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات پر گہری مسرت کا اظہار کرتے ہوئے، صدر ایران سے اپنے مذاکرات کی طرف اشارہ کیا اور کہا: تجارتی، معاشی اور صنعتی تعلقات سمیت مختلف میدانوں میں اچھے مذاکرات ہوئے ہیں اور دستخط کی گئي دستاویزوں کے پیش نظر امید ہے کہ آپ کی ہدایات کی روشنی میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں پہلے سے زیادہ فروغ آئے گا۔

انھوں نے مشترکہ تشویشوں، خاص طور پر افغانستان اور دہشت گردی کے پھیلاؤ کے بارے میں پائي جانے والی تشویش کو دونوں ملکوں کے درمیان اہم موضوعات میں سے ایک بتایا اور کہا: ہم افغانستان میں امن و امان اور تمام قومیتوں کی شمولیت سے ایک حکومت کی تشکیل کے خواہاں ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں امید ہے کہ سیکورٹی کے میدان میں ایران اور تاجکستان کے تعاون میں فروغ سے، ان تشویشوں پر غلبہ حاصل کر لیا جائے گا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .