۱۸ شهریور ۱۴۰۳ |۴ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 8, 2024
مولانا سید صفی حیدر زیدی

حوزہ/سکریٹری تنظیم المکاتب: انقلاب اسلامی ایران اپنے فکری اور عملی اثرات کے ساتھ ساتھ جغرافیائی لحاظ سے بھی پھیل رہا ہے اور روزانہ عالم بشریت کے نئے علاقوں تک پہنچ رہا ہے کیوں کہ یہ انسانیت کی بقا کی کوشش ہے، حکومت بنانے اور اقتدار قائم کرنے کی ہوس نہیں۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید صفی حیدر زیدی سکریٹری تنظیم المکاتب نے بانی انقلاب اسلام حضرت امام خمینی کی 33 ویں برسی کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ دنیا کا ہر انقلاب چاہے جتنا عوامی ہو مدت گذرنے کے ساتھ اس کا دائرہ تنگ ہوتا ہے اور اثر کم ، یہاں تک کہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔ لیکن ایمانی اور دینی بنیادوں پر انقلاب وقت گذرنے کے ساتھ جوان ہوتا ہے اور اسکا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے۔ انقلاب عاشورا جس کی نمایاں ترین مثال ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی انقلاب سے روح لے کر ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہوا۔ شدید مخالفتوں اور دشمنیوں کے باوجود اسکی وسعت، گہرائی اور گیرائی بڑھ رہی ہے۔ پیغام انقلاب اپنے فکری اور عملی اثرات کے ساتھ ساتھ جغرافیائی لحاظ سے پھیل رہا ہے اور روزانہ عالم بشریت کے نئے علاقوں تک پہنچ رہا ہے کیوں کہ یہ انسانیت کی بقا کی کوشش ہے ، حکومت بنانے اور اقتدار قائم کرنے کی ہوس نہیں۔

مولانا صفی حیدر نے مزید کہا کہ انسانیت دشمن مسلسل مختلف طریقوں اور وسیلوں سے انقلاب اور بانیٔ انقلاب کی عظیم شخصیت کو مخدوش کرنے کی ناکام کوشش کرتے نظر آتے ہیں ۔ لیکن ہر آزاد فکر انسان جس نے آپ کی زندگی کا سرسری مطالعہ بھی کیا ہے وہ آپ کے کردار کا کلمہ پڑھتا نظر آتا ہے۔ یہ بانیٔ انقلابؒ کی روحانیت کے علاوہ اور کس بات کا نتیجہ ہے کہ کل کا مخالف آج کا موافق نہیں بلکہ مرید بنتا دکھائی دے رہا ہے۔

انکا کہنا تھا کہ یہی بات ہر باشعور انسان کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ آخر اس مرد الہی میں کون سی خصوصیت تھی کہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ گذرنے کے بعد بھی نہ صرف یہ کہ وہ شخصیت مقبول خاص و عام ہے بلکہ نام خمینی سنتے ہی لوگوں میں ایک امنگ اور دلوں میں احترام پیدا ہو جاتا ہے اور ہر ایک اپنے قائد ، رہبر اور پیشوا کی حیثیت سے انکا احترام کرتا ہے۔

سیکرٹری تنظیم المکاتب نے کہا کہ اسکی وجہ صرف اور صرف وہی ہے جو امیرالمومنین علیہ السلام نے بیان فرمائی ہے۔ ’’جو لوگوں کا پیشوا بننا چاہتا ہے اسے دوسروں کو تعلیم دینے سے پہلے خود کو تعلیم دینا چاہیئے اور زبان سے درس اخلاق دینے سے پہلے اپنی سیرت و کردار سے تعلیم دینا چاہیئے ‘‘ (نہج البلاغہ ، کلمات قصار ۷۳) ظاہر ہے جو تربیت زبانی ہوتی ہے سماعت سے تجاوز نہیں کرتی لیکن جو تربیت عملی ہوتی ہے وہ نسلوں کو باعمل بناتی ہے۔ امام خمینی ؒ نے صرف زبانی نہیں بلکہ عملی تربیت کی۔ اسلامی انقلاب سے پہلے جب آپ چاہے قم میں رہے یا جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے تھے آپ کے گھر والے ایران میں طاغوتی حکومت کے زیر نظر شدائد و مشکلات سے دو چار رہے ۔ اسی راہ میں آپ کے جواں سال فرزند آیۃ اللہ سید مصطفیٰ خمینی ؒ کی شہادت ہوئی اور ان تمام مشکلات میں آپ سے نہ صبر کا دامن چھوٹا اور نہ ہی پائے ثبات میں لغزش آئی ۔ جب کہ دشمن یہ سمجھ رہا تھا کہ ان مشکلات کے سامنے آپ شکست قبول کر کے اپنا راستہ بدل دیں گے لیکن اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ راستہ آپ نے کربلا سے سیکھا تھا کہ جہاں چراغ بجھنے کے بعد دوبارہ جب جلا تو اسکی روشنی اور بڑھ گئی اور ہردن روشنی میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔

انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینیؒ کا یہی خلوص، للٰہیت اور آپ کا ’’فنا فی اللہ‘‘ ہونا تھا جس نے آپ کی شخصیت کو آفاقی بنا دیا ۔ آپ کو احساس ذات نہیں تھا بلکہ آپ کی ساری سعی و کوشش کا محور اللہ کی عبادت اور اسکے بندوں کی خدمت تھی اور اس راہ میں آپ نے نہ انسانیت دشمنوں کی دشمنی کی پرواہ کی اور نہ ہی اپنے عہدہ و منصب کی ۔

مزید اپنے بیان میں کہا کہ دنیا کے امراء اور حکام کا مزاج یہ ہے کہ وہ اپنی تعریف پر خوش ہوتے ہیں ، تعریف کرنے والے کی تعریف اور چاپلوس کو مخلص سمجھتے ہیں لیکن امام خمینی قدس سرہ کی ذات اس سے مختلف تھی کیوں کہ آپ علوی حکومتی روش پر عمل پیرا تھے لہذا بارہا فرمایا:’’مجھے رہبر کے بجائے خادم کہا جائے تو و ہ میرے لئے زیادہ مناسب ہے۔‘‘

سربراہ تنظیم المکاتب بیان کرتے ہوئے کہا کہ وفات سے تقریباً دو برس قبل ۲۹؍ ستمبر ۱۹۸۷؁ء کو ائمہ جمعہ کے جلسے میں جسمیں آپ خود موجود تھے، فقیہ اہلبیتؑ آیۃ اللہ مشکینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خطاب میں آپ کا’’ عالم تشیع کے عظیم مرجع تقلید، عالم اسلام کے عظیم رہبر اور دنیا کے کمزوروں کے حامی اور پناہ گاہ ‘‘ کے عنوان سے تذکرہ کیا تو کوئی اور ہوتا تو خوش ہو جاتا لیکن آپ نے ان سے گلہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسی باتوں سے پرہیز کریں جو مجھے آگے بڑھنے کے بجائے(راہ معنویت میں) پیچھے لے جائیں بلکہ دعا کریں کہ ہم انسان بن جائیں۔‘‘ یعنی غرور و تکبر جیسی روحانی اور اخلاقی بیماریاں ہماری روح اور اخلاق کو اپنے لپیٹ میں نہ لے سکیں۔

انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا اگرچہ آپ کی رحلت کو ۳۳ برس ہونے والے ہیں لیکن آپ کی یاد اور ذکر آج بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ آپ کی زندگی میں تھا۔مدت گذرنے کے باوجود آپ کے فقدان کا احساس کم نہیں ہوا بلکہ اور بڑھتا ہی جا رہا ہے ، خصوصاً جب اسلام و انسانیت دشمنی کی آندھیاں تیز ہوتی ہیں تو یہ احساس شدت اختیار کر لیتا ہے۔ لیکن ہم اپنے کریم پروردگار کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ اس نے قائد انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای دام ظلہ الوارف کی شکل میں وہ عظیم با بصیرت مدبر، زاہد و متقی ، شجاع ، جہاں دیدہ رہبر عطا کیا ہے جو ہر جہت سے اس دور کا خمینی ؒ لگتا ہے۔

مولانا صفی حیدر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ضرورت ہے کہ نسل حاضر اس عبقری شخصیت کو پہچانے اور انکی تعلیمات اور افکار پر غور کرے ، فکر کرے اور اس پر عمل کرے تا کہ مشکلات میں بھی کامیابی اس کا مقدر بنے۔ حقیقی اسلام اور تشیع سے خود بھی واقف اور دنیا کو بھی واقف کرائے ۔ جن عربوں نے امام خمینیؒ کو اپنا آئیڈیل سمجھا وہ آج میدان عمل میں ہیں۔ کم تعداد اور برسوں کی پابندیوں کے باوجود دشمن کے سامنے ڈٹے ہیں۔ لیکن جو اس نعمت سے محروم ہیں وہ استعمار کے غلام اور انکے آلہ کار ہیں ۔

اے ہمارے عظیم رہبر! آج آپ کا وجود ظاہرا ہمارے درمیان نہیں لیکن آپ کے افکار ہمارے رہنما ہیں۔ آپ کی تعلیمات ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ، آپ کی سیرت ہمارے لئے روشنی ہے اور آپ کی آواز ہمارے دلوں کی تقویت۔

ائے بانی نظام اسلامی! آپ کی بلند روح، عظیم شخصیت ہمیں آج بھی درس حریت دے رہی ہے۔ ہم اپنے تمام تر وجود کےساتھ آپ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ ہمیں آپ کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .