تحریر: سید مشاہد عالم رضوی
حوزہ نیوز ایجنسی| غم سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کا دن ہے، آغاز محرم ہے، مگر ہائے رے دنیا کیسے کیسے رنگ بدلتی ہے، نہ تو گھروں پر سیاہ پرچم نظر آرہے ہیں نہ حسین حسین کی صدائیں فضامیں گونجتی ہیں نہ شور ماتم ۔۔۔
سچے بھائی کے یہ دل سے نکلے نوحے کے دو بول
زہرا کی دعا ہے یہ ماتم یہ ماتم کیسے رک جائے؟
ذہن میں گونج رہے ہیں۔
ابھی میں لکھنؤ میں ہوں اور ہر سال کی طرح امسال بھی عشرہ اولی کےلئے اپنی سابقہ جگہ سفر کی تیاری میں مصروف ہوں مگر اب کی بار دماغ بھوجھل اور طبیعت میں رنج وغم کے اثارہیں کہ ہائے افسوس انتیس ذی الحجه ہی سے محلوں میں آثار محرم نمایاں ہوجاتے تھے اورخواتین اپنے اپنے گھروں میں سینہ زنی کرتیں اور نوحہ وبکا سے عزیز فاطمہ حضرت امام حسین علیہ السلام و سائر شہداء کربلا کو اپنے اپنےعزاخانوں میں مہمانی کی دعوت دیتی تھیں جبکہ چاند رات کا تو منظر ہی بدلا ہوتا، مگر جیسے اب کی بار چاروں طرف سناٹا ہو۔۔۔۔
اگر یہی حال رہا تو پھر نام حسین لینے والے بھی دوسری قوموں کی طرح اپنا تشخص کھو بیٹھیں گے خدا کرے دوسرے شہروں میں یہ صورت حال نہ ہو۔
اس لئے جملہ بازی سے دور احادیث معصومین علیہم السلام اور نوک نیزہ پر تلاوت ہونے والے قرآن کی روشنی ہی میں قوم اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکتی ہے اور ہرقسم کے انحراف سے چھٹکارا پاسکتی ہے۔
وہ حسین جنہوں نے راہ رضاے الہی میں اپنا سب کچھ لٹا دیا لگتا ہےجیسے اب ہم بھی ان کے ذکر کی توفیق سے محروم ہوتے جارہے ہیں ؟؟
غضب ہے خداکا ایسی زندگی پر خاک ہو ۔۔۔۔
یہ اعتراض نہیں انتباہ ہے۔
امام سجاد علیہ السلام نے آپ کی عزا قائم کی ہے امام باقر وصادق علیہما السلام نے شیعوں کی اس عزاداری کی طرف رہنمائی فرمائی ہے اور امام رضا علیہ السلام نے فرمایا اے ریان ابن شبیب اگر رونا آۓ تو غم حسین میں روؤ اور امام حسین علیہ السلام نے فرمایا میں کشتہ گریہ ہوں باایمان میرا ذکر نہیں کرے گا مگر یہ کہ میرے اوپر گریہ کرے گا اور زینب بنت علی نے اپنی بیکسی وبےچادری سے بھائی کی مظلومیت کی پاسداری کی ہے اور پیغام حسینی کی تشہیر فرمائی ہے اور زوجہ رسول جناب ام سلمہ نے شہادت حسین پر آنسو بہائے ہیں جبرئیل امین نے ذکر مصیبت سید الشہداء کیا ہے اور رسول مقبول نے اس مصیبت پر گریہ و بکا فرمایا ہےاور ایام وامتداد سال میں بزرگان دین ودیانت علماء اہل بیت علیھم السلام نے مسلسل عزاداری سید الشہداءبرپا کی ہے اور اسی عزاۓ شہداء کربلا کوشیعوں کی حیات طیبہ کا ایک حصہ قرار دیا ہے مگر اب دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شاید علماء و ذاکرین میں خلوص نیت کی کمی نے انہیں اور قوم کوحرارت ایمانی سے دور کرنےکاکام کیا ہےجس کے سبب سےبانیان مجالس بھی اخلاص عمل سے دور ہوتے جارہے ہیں کہ جسکی افراد کو خود اب شکایت ہے۔
ہاں البتہ بیماری بھی اپنے ہی اندر ہے اوردوا بھی خود اپنے ہی پاس ہے۔
انصاف پسند برانہ مانیں حضرت امام حسین جیسے عظیم انسان کی خدمت کے لئے ہم جیسے لوگ اھل نہیں ہیں، امام بڑا مگر اس کے خدمت گزار بونے ہوتے جارہے ہیں ؟
یہ تو آقا کی بڑی مظلومیت ہے
الغیاث یارسول اللہ۔۔۔
یالیتنا کنا معکم۔ ۔۔۔کس زبان سے کہیں آقا ہم شرمندہ ہیں مگر ان کوتاہیوں کے باوجود ہمیں اپنی چوکھٹ پر رہنے دیجئے آقا ہم کو آپ کی خدمت گزاری کا وھم ہے شاید یہ وہم حقیقت میں بدل جاۓ۔
بی بی سکینہ آپ کی خدمت میں اور آپ کےبھیا علی اصغر کی خدمت اقدس میں عرضی ہے کہ وہی معرفت جو آپ کو اس بچپنے میں ملی ہمیں بھی ۔۔۔
مئے حسین پلا ساقیا قرینہ سے
کہ روح تشنہ ھے دل مضطرب عزا کے بغیر
ابن حکیم
ہوسکتا ہے راہ خدا میں کبھی آپ کی طرح قلم سے نکلا ہوا ہمارا بھی کوئی حرف حرف حسین بن جائے اور چراغ ہدایت۔
ہم بولنے والےلوگ منبر پر کہی جانے والی باتوں سےخود کو کس طرح سے مستثنی کرسکتے ہیں؟
لبیک یا حسین
سلام ہو اے ریگ زار کربلا پر بکھرے ہوے چاند ستارو
نبی وعلی وفاطمہ کے مقاصد کے پاسباں نور کے تابندہ جھلملاتے تارو
اے دشت نینوا کے گل گوں کفن شہیدو ،
وفا و مروت واخلاص وعمل کے عظیم سپوتو ، اور
انسانیت کے باعظمت وباعزت رہنماآدرش ، ہماری عزا کو روحانیت سے لبریز فرمائیں اور روح قرآنی ومعرفت ربانی سے ہم عزاداروں کے دلوں کو مالا مال کردیجئے ہم آپ کی عقیدت ومحبت کا گل لالہ دلوں میں چھپاے بارگاہ معبود میں دست بدعا ہیں کہ آپ کی آمین پر استجابت دعاکا یقین کامل رکھتےہے ۔
اے بادصبا گزر کر اور ریگ زار کربلا پر بکھرے ہوئے شہدائے اسلام کےلاشوں پر آنسوؤں کا نذرانہ پیش کر
ٹھر اور دیر تک وہیں قیام کر اور ہم عاشقوں کا انہیں یہ پیام دے کہ ہم جب تک زندہ ہیں اپنے آنسوؤں سے آپ کی پیاس بجھاتے رہیں گے۔
اشعار عرب کا ترجمہ