۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
ایرانی صدر

حوزہ/ صدر ایران سید ابراہیم رئیسی نے نیویارک میں یونیسکو کے اجلاس سےخطاب میں علمی و ثقافتی تسلط کو بدترین ظلم قرار دیا اور کہا کہ پیشرفت و ترقی کو ، تعلیم و تربیت، خاندانی اخلاقی بنیادوں کے استحکام اور عدل و انصاف سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے نیویارک میں اپنے قیام کے پہلے دن اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جانب سے منعقد کیے جانے والی ٹرانسفارمنگ ایجوکیشن سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تسلط پسند عالمی نظام، دیگر ملکوں کو پسماندہ رکھنے میں اپنا فائدہ سمجھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ تسلط پسند طاقتیں غیر منصفانہ عالمی نظام کے قیام، عالمی اداروں میں اثرو رسوخ اور اپنے نظریاتی اور ثقافتی نیٹ ورک کے ذریعے دیگر ملکوں کی ترقی میں رکاوٹیں ڈال رہی ہیں ۔

صدر ایران کا کہنا تھا کہ تعلیمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بنیادی مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران سمجھتا ہے کہ ترقی، تربیت، خاندانی نظام، انصاف اور مذہبی اقدار کو ایک دوسرے سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا ۔ سید ابراہیم رئیسی نے ثقافتی تسلط پسندی اور سائنسی اجارہ داری کو ظلم و ناانصافی کی بدترین شکل قرار دیا۔

صدر ایران نے عالمی اداروں پر زور دیا کہ وہ دنیا کے تمام ملکوں کے تعلیمی اور تربیتی حق کا احترام اور ثقافتی یلغار کے مقابلے میں ان کا دفاع کریں ۔ انہوں نے واضح کیا کہ خاندانی نظام کا تحفظ ، ماحولیات کا احترام، انصاف کی بالادستی، تشدد و انتہا پسندی کی نفی اور صحت مند سائبر سرگرمیوں کی فراہمی ، تعلیمی تبدیلیوں اور اصلاحات میں سرفہرست ہونا چاہیے۔

سید ابراہیم رئیسی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ستترویں اجلاس میں شرکت کے لیے ایک اعلی سطحی سفارتی وفد کے ہمراہ پیر کی شام نیویارک پہنچے ۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس بیس ستمبر سے چھبیس ستمبر تک جاری رہے گا ۔ پروگرام کے مطابق اقوام متحدہ کے ایک سوترانوے رکن ملکوں کے سربراہان اور دیگر اعلی عہدیدار اس اجلاس سے باری باری خطاب کریں گے۔ اس موقع پر عالمی مسائل اور مشکلات کے بارے میں کئی ذیلی اجلاس بھی منعقد ہوں گے جن میں موسمیاتی تبدیلیوں، کورونا وائرس ، پائیدار ترقی کے اہداف، ترقی پذیر ملکوں کے قرضہ جات جیسے موضوعات کے علاوہ دنیا میں جاری جھڑپوں اور بحرانوں کے بارے میں غور و خوض کیا جائے گا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .