حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لاہور/ علامہ سید جواد نقوی کا روز جمعہ اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ رسول اللہ کی نسبت کی وجہ سے امہات المومنین، اصحاب کرام اور اہل بیت اطہار کا احترام مسلمات میں سے ہے جس پر تمام مسالک متفق ہیں اور اسکے لئے ملک میں قانون بھی موجود ہے لیکن یہ نیا قانون چند اعتبار سے بدنیتی پر مبنی ہے اولا یہ بے موقع و بے محل ہے چونکہ اس وقت ملک بدترین سیاسی و معیشتی بحرانوں کا شکار ہے، دہشتگردی کے سائے منڈلا رہے ہیں اور اس پر فرقہ واریت کی تیلی جلا دی گئی ہے جس کا ثبوت میڈیا پر اس بل سے متعلق عکس العمل ہے۔
دوم یہ قانون صحابیت، امہات اور اہلبیت کے دفاع کے لئے نہیں بنوایا گیا بلکہ اسکا مقصد بنی امیہ کی کچھ متنازع شخصیات کو صحابیت کا لباس پہنا کر انہیں اصحاب رسول والا تقدس و احترام دلوانا ہے جو اہلسنت کے یہاں بھی متنازعہ ہیں اور جن پر اہلسنت میں شیعہ کی نسبت زیادہ اختلاف رائے پایا جاتا ہے اور اس اختلاف رائے کو توہین کہہ کر اس قانون سے غلط استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
سوم اس بل کو پیش کرنے کا مقصد پاکستان میں موجود متشدد و تکفیریت پسند طبقے کے ووٹ حاصل کرنے کی خواہش ہے جو از خود مذہب کی توہین ہے چونکہ یہ مذہب کا سیاست و اقتدار کے حصول میں بطور اوزار استعمال ہے۔ انکا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں محبت سے زیادہ نفرت کی بنیاد پر ووٹ پڑتے ہیں اور یہی کام ہندوستان میں مودی نے کیا ہے۔
سید جواد نقوی کا مزید کہنا تھا کہ اگر بل پیش کرنے والوں کی نیت میں صداقت ہوتی تو پیغام پاکستان کے نام سے جو دستاویز ہے اسی کو قانون کا درجہ دلواتے جس میں تمام مسالک کے بڑے علماء کرام کے دستخط موجود ہیں۔ اس دستاویز میں بھی یہی لکھا ہے کہ تکفیریت، دہشتگردی، توہینِ مذہب جائز نہیں ہے اور اس دستاویز کی خوبی یہ ہے کہ اس پر تمام مسالک کا اتفاق ہے اور مذہبی قانون سازی کا طریقہ و ادب بھی یہ ہے کہ مسالک کے اکابرین کی مشاورت اور اعتماد میں لے کر قانون سازی کی جائے جسکے لئے اسلامی نظریاتی کونسل اور متحدہ علماء بورڈ جیسے پلیٹ فارمز بھی موجود ہیں۔