۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
کلب جواد نقوی

حوزہ/ مجلس علمائے ہند کے جنرل سکریٹری نے کہاکہ یہ ایک تاریخی قدم ہے جس سے خطے میں استحکام اورعالم سلام کو فائدہ پہونچے گا۔دونوں ملکوں کو چاہیے کہ اپنے روابط کی بہتری اور مضبوطی کے لئے ہر ممکن مخلصانہ کوشش کریں تاکہ عالم اسلام کو مزید تقویت میسر ہو۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنؤ/ ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی اور معاشی تعلقات کی بحالی پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے مجلس علمائے ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید کلب جواد نقوی نے کہاکہ یہ ایک تاریخی قدم ہے جس سے خطے میں استحکام اورعالم سلام کو فائدہ پہونچے گا۔دونوں ملکوں کو چاہیے کہ اپنے روابط کی بہتری اور مضبوطی کے لئے ہر ممکن مخلصانہ کوشش کریں تاکہ عالم اسلام کو مزید تقویت میسر ہو۔

مولانانے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بحالی کو خوش آیند قراردیتے ہوئے کہاکہ ایران اور سعودی عرب دو بڑی طاقتیں ہیں ۔ان کے دوستانہ روابط مشرق وسطیٰ کی سیاست میں تبدیلی کا خوش آیند عندیہ ہے ۔مولانانے کہاکہ ہم امید کرتے ہیں کہ شام ،یمن اور عراق میں سیاسی استحکام وجود میں آئے گا ۔خاص طورپر یمن کے سیاسی مسائل کا حل ضروری ہے تاکہ یمن میں سیاسی بحران ختم ہوسکے اور یمنی عوام جو افلاس زدہ زندگی گذارنے پر مجبورہے ،اس کی خوش حالی کے اسباب فراہم ہوسکیں ۔مولانانے کہاکہ ان تعلقات کی بہتری کے نتیجے میں جنت البقیع کی بازسازی کے امکانات بھی روشن ہوئے ہیں ۔ہم سعودی حکومت سے مسلسل یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ جنت البقیع کی تعمیر نوکروائی جائے ۔

مولانا نے مزید کہاکہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات استعماری طاقتوں کے زوال کا اشاریہ ہے ۔عرصۂ دراز سے اسلام دشمن طاقتیں دونوں ملکوں کے درمیان دشمنی کا بیج بوتی رہی ہیں ،یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ پریشانی اسرائیل کو لاحق ہے ۔مولانانے مزیدکہاکہ ایران اور سعودی عرب کو عالم اسلام کا متحدہ محاذ قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔اس طرح مسلمانوں کا عالمی اتحاد سامنے آئے گا ۔

انہوں نے کہاکہ عالم اسلام کا اتحاد ’اسلاموفوبیا‘ کے خاتمے میں اہم کردار اداکرسکتاہے ،جس کے لئے مشترکہ کوشش ہونی چاہیے ۔مولانانے اپنے بیان میں کہاکہ ایران اور سعودی عرب کے بہتر تعلقات کی بناپر شیعہ دشمنی میں بھی کمی واقع ہوگی ۔خاص طورپر سعودی عرب میں شیعوں پر جاری تشدد اور جارحیت کو ختم ہوناچاہیے تاکہ یہ دوستی مزید مضبوط ہوسکے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .