۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
علامہ سبطین سبزواری

حوزہ/ مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستانی ریاست کو عملی طور پرتکفیری دہشت گردوںکے حوالے کر دیا گیا ہے، ہمیں خاموشی اور صبر کی تلقین کی بزدلانہ پالیسی کو چھوڑ کر بہادری اور شہادت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لاہور/ شیعہ علماءکونسل کے مرکزی نائب صدر علامہ سید سبطین حیدر سبزواری نے کہاہے کہ پاراچنار کے نواحی علاقے میں امتحانی ڈیوٹی پر موجوداساتذہ کی مظلو مانہ شہادت افسوسناک واقعہ ہے ،جس سے ملکی فضا سوگوار ہے۔ لیکن اس سے زیادہ افسوسناک اور شرمناک قومی بے حسی اوراداروں کی خاموشی ہے۔ شہریوں کی جان و مال کا تحفظ افواج پاکستان اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ ملک میں شیعہ نسل کشی جاری ہے اور ریاستی ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ عدالتوں کو سوموٹو یاد ہے اور نہ ہی سیکیورٹی اداروں کو دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کی کوئی فکر۔ بہت صبر کر لیا، اب اس سے زیادہ صبر نہیں ہوتا۔ شیعہ کو خود اپنی حفاظت کے لئے اٹھنا ہوگا۔ ہمیں خاموشی اور صبر کی تلقین کی بزدلانہ پالیسی کو چھوڑ کر بہادری اور شہادت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پارہ چنار میں مظلومانہ انداز میں 8اساتذہ کو شہید کیا گیا ۔یزیدی اطوار کے مطابق شہید اساتذہ کے اعضا کاٹے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب اے پی ایس کا اندوہناک واقعہ ہوا تو اس وقت تمام قوم سوگوار تھی ، تمام نمائندہ طبقات نے اظہار افسوس کیا،لیکن انتہائی کرب اور دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ پارہ چنار کے واقعہ کو ریاستی اداروں، عدلیہ ، سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے بالکل نظر انداز کیا ۔شاید اس لئے کہ شہدا مکتب اہل بیت ؑسے تعلق رکھتے تھے ۔ ٹریفک حادثے،برفباری اور دریا میں ڈوبنے کے واقعات پر افسوس کا اظہار کرنے کے تعزیتی بیانات دینے والی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ روزانہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑے بڑے پروگرام کرنے والے میڈیا چینلز پر شہدا ءکی شہادت کا ذکر نہیں آیا۔حکومتی اتحاد اور تحریک انصاف باقی ہر ایشو پر بیانات دیتی ہیں، شہدا کے لواحقین سے جاکر تعزیت کی توفیق تک نہیں ہوئی۔

اپنے جاری بیان میں علامہ سبطین سبزواری نے کہا پاکستان میںاہل تشیع کا خون سستا سمجھ لیا گیا ہے۔ شیعہ خون کی کوئی اہمیت سمجھی نہیںجا رہی ۔ گذشتہ کئی دہائیوں سے پاراچنار ، کوئٹہ اور ڈیرہ اسماعیل خان میںشیعہ کو چن چن کر شہید کیا جارہا ہے ۔ چلاس میں شناخت کرکے شیعہ کو بسوں سے اتار کر شہید کیا گیا۔چارسدہ کا ایک خونخوار بدبخت مولوی شیعہ کو علاقے سے نکل جانے کی دھمکیاں دیتا رہا۔ ریاستی اداروں نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔اس وقت پاکستانی ریاست کو عملی طور پرتکفیری دہشت گردوںکے حوالے کر دیا گیا ہے،وطن عزیز میں بسنے والے شہریوں کا کوئی پرسان حال نہیں ۔شیعہ ٹارگٹ کلنگ اوربم دھماکوں کے جتنے افسوسناک واقعات ہوئے ہیں، ان کی تحقیقات منظر عام پر نہیں لائی گئیں۔

انہوں نے کہا ہم شہداءکربلا کے وارث ہیں، شہادتوں سے خوفزدہ نہیں مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ ریاستی اداروں، سیاسی اور مذہبی قیادت کی بے حسی شرمناک حدتک گر چکی ہے۔ 2014ءمیں اے پی ایس کا واقعہ ہوا تو سب ادارے جاگ گئے تھے۔ نیشنل ایکشن پلان بنا مگر اس کے بعد اس پر ملدرآمد نہیں ہوا۔دہشت گرد مسجدوں میں دھماکے کرتے ہیں، تعلیمی ادارے ،عبادت گاہیں تک محفوظ نہیں ۔ اگر یہ معاملہ اسی طرح سے جاری رہا تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ریاست کا نقشہ کیا ہوگا؟

تبصرہ ارسال

You are replying to: .