حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، برٹش اسلامک سینٹر کے حامیوں نے مذہبی مقام کی نگرانی کے لیے ایک غیر مسلم کی تقرری کے خلاف احتجاج کیا، احتجاجی کرنے والوں نے اسلامک سینٹر کے احاطے کے سامنے ’’ہماری مساجد کا پیچھا کرنا چھوڑو‘‘ جیسے برطانوی مخالف نعرے لگائے اور مذہبی مقامات کی نگرانی کے لیے کمیٹی کی تشکیل جیسے فیصلوں کی مذمت کی۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ برطانوی حکومت مختلف حیلوں بہانوں سے مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں تیزی سے مداخلت کر رہی ہے جو کہ مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرنے والے ملک میں تشویشناک ہے۔
برطانوی چیریٹی کمیشن، جس کا سربراہ ملک کے وزیر ثقافت کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے، نے تین ہفتے قبل برطانیہ کے اسلامک سینٹر کے خلاف سیاسی طور پر محرک فیصلہ لیا، جس میں ’’اما موڈی‘‘ نامی ایک برطانوی وکیل کو اس مذہبی مقام کا نگران مقرر کیا گیا۔ تاہم مظاہرین کا کہنا ہے کہ موڈی کو مسلم کمیونٹی کے مفادات کا صحیح اندازہ نہیں ہے، اس اقدام کا مقصد بریٹش اسلامک سینٹر کی سرگرمیوں کو جاری رکھنا اور ملک کی قدامت پسند حکومت کے مفادات کے مطابق مغرب بالخصوص امریکیوں میں اسلام کو متعارف کرانا ہے۔
برطانوی چیریٹی کمیشن کا یہ قدم مکمل طور پر سیاسی ہے جو لندن نے واشنگٹن کے کہنے پر اٹھایا ہے،برطانوی چیریٹی کمیشن نے ایسا فیصلہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی جانب سے قدس فورس کے سابق کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر 2020 میں تعزیتی اجلاس منعقد کرنے کے پیش نظر کیا ہے، دسمبر 2022 میں برطانوی چیریٹی کمیشن نے کہا کہ اسلامک سینٹر کی سرگرمیوں کی چھان بین کی جائے گی، اس کے علاوہ اس کمیشن نے اس سینٹر کے منیجر پر بھی الزام لگایا۔
دہشت گردانہ کارروائیوں میں شہید ہونے والے جنرل سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کے لیے تعزیتی اجلاسوں کے انعقاد کے بعد برطانوی حکومت نے اسلامک سینٹر کی نگرانی سخت کر دی اور اس کی سرگرمیوں میں مداخلت شروع کر دی۔
اس تناظر میں برطانیہ میں اسلامی انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ مسعود شجرہ کا کہنا ہے کہ برطانوی چیریٹی کمیشن اس ملک میں مساجد اور اسلامی مراکز کو بند کرنے کے مقصد سے اس طرح کا دباؤ ڈال رہا ہے،۔ وہ خالص اسلام کو کنٹرول کر کے مغرب کے اسلام کو مسلمانوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں،۔ اگر ہم نے اب مزاحمت نہ کی تو وہ ہمیں کمزور کر دیں گے اور پھر ہم برطانوی اسلام کی پیروی پر مجبور ہو جائیں گے۔