تحریر: سیدہ سائرہ نقوی
حوزہ نیوز ایجنسی | سول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: یقینا قتلِ حسين عليہ السلام کیلئے مومنوں کے دلوں میں ایک حرارت ہے جو کبھی ٹهنڈی نہیں ہوگی۔ (مستدرک الوسائل ۔ جلد 10)
1445 سن ھجری کا سورج طلوع ہونے کو ہے اور تقریبا تمام عالم اسلام ایامِ عزا کے انعقاد کے لئے آمادہ ہے۔ چونکہ محرم الحرام کے پہلے دس ایام نواسہ رسول سید الشھداء امام حسین علیہ السلام، ان کے اہلِ بیت علیہم السلام اور اصحابِ باوفا کی عزاداری سے مخصوص ہیں، اس لئے ہر ذی شعور انسان خود کو واقعہ کربلا کے پیغام میں ڈھالنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ سن 61 ھجری میں امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" اور ایک فاسق و فاجر حاکم کی بیعت سے انکار تھا۔ اس مقصد میں یقینا ایک تربیتی پہلو پوشیدہ ہے۔ وہ لوگ جو عزاداری کا باقاعدہ انعقاد کرتے ہیں، خواہ منتظمین ہوں، حاضرینِ مجلس ہوںِ یا اہلِ منبر۔ ان کی شرعی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ایامِ عزا کے تمام معاملات کو انتہائی احترام اور خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیں۔ اس حوالے سے راقم نے رہبر انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای کے طے کردہ ضابطہ اخلاق سے استفادہ کرتے ہوئے کچھ نکات ترتیب دیے ہیں اور اس میں اضافہ بھی کیا ہے۔ امید ہے قارئین کرام بھی ماہِ مقدس یعنی محرم الحرام کا استقبال مندرجہ ذیل نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کریں گے۔ ان شاءاللہ۔
1. خطباء و شعراء منبرِ حسینی کے تقدس اور احترام کا مکمل خیال رکھیں۔
2. شعراء واقعہ کربلا کے حوالے سے غیر حقیقی اور فرضی کلام پڑھنے سے گریز کریں۔
3. خطباء و شعراء منبرِ حسینی سے دنیا بھر کے مستضعفین کے حق میں اور ظالمین کے خلاف آواز بلند کریں۔ خصوصا شعراء اپنے کلام میں ہر دور کے یزید کو بے نقاب کرنے کی روایت جاری رکھیں۔
4. کل کی کربلا کے ساتھ ساتھ آج کی کربلا کو بھی منبرِ حسینی سے بیان کیا جائے۔ دورِ حاضر میں ہر خطہ ارض پر ہونے والے ظلم پر بات ہونی چاہیے۔
5. دورانِ مجلس و عزاداری خطباء و شعراء ملتِ تشیع میں پروان چڑھنے والی خرافات و بدعات کے تدارک کے لئے موثر تبلیغ و رہنمائی کریں۔ اس سلسلہ کو "آگاہی مہم" کا نام دیا جانا چاہیے۔
6. چونکہ مجالسِ عزا درسِ انقلاب کی بنیاد ہیں، لہذا خطباء و مداح خوان اپنے متن و کلام کے انتخاب کے لئے تاریخی کتب سے استفادہ کریں۔
7. منبرِ حسینی کو امام حسین علیہ السلام کے مشن "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" سے مخصوص کریں۔ ہر خاص و عام کو مہذب اور شائستہ انداز میں دعوتِ حق دیں۔
8. پیغامِ امام حسین علیہ السلام کی تبلیغ کے دوران تمام مسالک کے تقدسات کے احترام کو ملحوظ رکھیں اور ان کی توہین سے گریز کریں۔
9. آئمہ معصومین علیہم السلام سے جھوٹی احادیث منسوب کرنے اور واقعہ کربلا سے متعلق غلط مصائب پڑھنے کی حوصلہ شکنی کریں۔
10. مجالس و عزاداری برپا کرتے ہوئے شرعی حجاب کا خیال رکھا جائے۔ مخلوط نشست اور عزاداری جس میں شرعی حجاب و احکامات کی پابندی کرنا ممکن نہ ہو، کے انعقاد سے گریز کریں۔
11. منبرِ حسینی سے عقائدِ شیعہ اثنا عشری کو بیان کریں۔ عزاداری میں کئی خرافات و بدعات کے رواج پانے کی ایک وجہ علمائے کرام کا منبر سے ان عقائد کا بیان نہ کرنا بھی ہے۔
12. ایامِ عزا بالخصوص ایامِ عاشورا میں عیش و آرام اور پُرخوری سے پرہیز کریں۔ جسم و روح کو سختی و آزمائش کا مقابلہ کرنے کی عادت ڈالیں تاکہ کربلا میں اہلِ بیت علیہم السلام کے مصائب کو صحیح معنوں میں محسوس کر سکیں۔
13. ایسا کوئی فعل انجام نہ دیں جو شعائرِ عزاداری اور پیغامِ امام حسین علیہ السلام کی اہمیت کو کم کرے۔
14. خطباء کا حاضرینِ مجلس پر اعتماد قائم کرنا بیحد ضروری ہے۔ انہیں چاہیے کہ شرحِ صدر اور زبان کی گرہ کھولنے کے لئے آئمہ معصومین علیہم السلام سے توسل کریں۔ جو وعظ و نصیحت کرنا مقصود ہو، پہلے خود اس پر عمل کریں۔
15. مجالس میں تقسیم ہونے والے تبرکات کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ دوسروں کے لئے نمونہ عمل بننا ضروری ہے۔
16. اس ماہِ مقدس میں روزانہ زیارت عاشورا کی تلاوت کریں۔
17. باوضو مجلس میں جائیں اور پاکیزہ لباسِ عزا زیب تن کریں۔
18. جہاں تک ممکن ہو مجالسِ عزا کے انتظام میں شرکت کریں، حتی اگر زمین سے ایک تنکا اٹھانے کی حد تک ہی کیوں نہ ہو- خدا تعالی ہر نیک عمل خواہ وہ چھوٹا ہو، کی جزا دیتا ہے۔ خدا کرے عزاداری کے انتظامات کے لئے ہماری ہر کوشش سے سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور امام حسین علیہ السلام راضی ہوں۔
19. اور سب سے اہم یہ کہ اس ماہِ محترم میں نماز کو اول وقت ادا کریں اور قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت کیجئے، کیونکہ امام حسین علیہ السلام نے نماز اور تلاوتِ قرآن کو اپنا پسندیدہ عمل قرار دیا اور آپ حالتِ سجدہ میں شہید کئے گئے۔
20. ماہِ عزا کے ساتھ سیدالشھداء کے عزاداروں کا بھی احترام کریں-
21. گناہوں کو ترک کریں اور ہنسنے سے اجتناب کریں۔ امامِ زمانہ عجل اللہ فرجہ شریف کو عزاداری میں فراموش نہ کریں۔ گریہ و غم میں ان کا ساتھ دیجئے۔
اگر ان تمام نکات کو "نئے سال کی قرارداد" میں بھی شامل کیا جائے تو یقینا ہمارے ہر کام کا منظم انداز سے آغاز اور انجام بخیر ہوگا۔ دعا گو ہوں کہ خدا تعالی ہمیں پیغامِ کربلا کی روح پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ الہی آمین۔