حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مدرسہ الامام المنتظر قم ایران میں سالانہ شہدائے روحانیت سیمینار کا انعقاد ہوا، جس میں مکتب اہلبیت علیہم السّلام کی ترویج میں جام شہادت نوش فرمانے والے علماء کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا۔
اس سال کے شہدائے روحانیت سیمینار کیلئے عالمی سطح کے شہید علامہ محمد تقی برغانی رحمۃ اللہ علیہ، کتاب منھج الاجتھاد کے مصنف المعروف شہید ثالث اور پاکستان سے عظیم استاد و خطیب علامہ حافظ سید محمد ثقلین موضوع قرار پائے۔
سیمینار سے مدرسہ الامام المنتطر کے طالبعلم مولانا محمد جواد سیفی نے شہید محمد تقی برغانی کے حالات زندگی پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایک علم و معرفت کے خاندان میں آنکھ کھولی، ان کی بیشتر تصانیف فقہ کے میدان میں ہیں، فرقہ شیخیہ کے نظریات کو رد اور ان کی مخالفت کی وجہ سے انہیں شہید کیا گیا۔
مدرسہ الامام المنتظر کے ہی طالبعلم مولانا عون رضا نقوی نے شہید حافظ محمد ثقلین رحمۃ اللہ کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے کہا کہ استاد العلماء نے ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ میرا علمی جانشین حافظ محمد ثقلین نقوی ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم استاد العلماء سے حاصل کی۔ بچپن میں قرآن حفظ کیا اور اس کے علاوہ تام مقدماتی کتب کو حفظ کیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ آپ کے اساتذہ میں آیت اللہ العظمی فاضل لنکرانی، آیت اللہ حرم پناہی شامل ہے۔ آیت اللہ فاضل لنکرانی نے ان کو کہا تھا کہ دو سال اور حوزہ میں لگائیں تو اجازہ اجتہاد دیتا ہوں۔
سیمینار کے مقرر حجت الاسلام علامہ طاہر اعوان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہید محمد تقی برغانی تیرہویں صدی ہجری کے شہداء میں سے ہیں۔ ان کے متعلق رہبر معظم فرماتے ہیں کہ شہید کو جان بوجھ بھلایا گیا ہے۔
رہبر معظم فرماتے ہیں کہ کچھ شخصیات پر زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے، لیکن غفلت برتی جارہی ہے۔
حجت الاسلام علامہ طاہر اعوان نے کہا کہ شہید کی زندگی کے تین بڑے کارنامے ہیں۔
۱۔ حصول علم میں لگاؤ:
آپ نے بہت زیادہ درس و تدریس کی وجہ سے تمام تر مصروفیات ترک کردیں۔
خود شہید لکھتے ہیں: میں اور احمد نراقی جب جہاد پر جارہے تھے دوران سفر عیون الوصول (یہ کتاب نقد ہے قوانین الاصول پر) کا مباحثہ کیا۔
۲۔ کلمہ حق کی سربلندی کیلئے بلا خوف جدوجہد:
آپ نے بادشاہ وقت سے کہا تمہاری حکومت کی مشروعیت کیلئے فقیہ کی سرپرستی ضروری ہے۔ آپ نے صراحتاً ولایت فقیہ کا نظریہ پیش کیا۔
۳۔ باطل کا رد:
آپ نے باطل فرقوں کے خلاف جہاد کیا ہے۔
سرزمین ایران میں لباس تشیع میں دو فرقے وجود میں آئے۔
شیخیت، بہائیت
شیخ احمد احسائی کا بادشاہ مرید تھا،بظاہر متقی عالم تھا، علماء نے ان کے خلاف بولنے کی جرات نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ شہید کو جب شیخ احمد احسائی کے باطل نظریات کا علم ہوا تو آپ نے ان سے مناظرہ کیا۔ شہید نے کہا اگر تمہارے یہ نظریات ہیں تو تم کافر ہو۔ تکفیر کی بات پھیل گئی۔ علماء کو پتہ چلا تو علماء نے شہید کی حمایت کی۔
شیخ نے کہا میں حکمت کی باتیں کرتا ہوں میں بطون روایات اہل بیت کی باتیں کرتا ہوں۔ ان فقہاء کو سمجھ نہیں آتی۔ میری باتیں جعفر شریعتمداری سمجھ سکتا ہے۔ شریعتمداری حج پر تھے، بادشاہ کی کوشش تھی کہ شہید اور شیخ میں صلح ہوجائے۔ فتح علی شاہ نے شہید کو دعوت دی ، شہید نے کہا کہ دوسرے علماء آرہے ہیں تو میں آوں گا۔
شیخ احمد بی تھے۔ شہید کے سامنے شیخ کو بٹھایا۔شہید نے کہا جو کافر ہیں ہم ان کے ساتھ دسترخوان پر نہیں بیٹھ سکتے۔
اس واقعہ کے بعد شیخ کیلئے زمین تنگ ہوگئی اور یہ نجف چلے گئے۔
شریعتمداری کو کتابیں دی گئیں کہ آپ پڑھیں ان کو پھر فیصلہ کریں۔ آپ نے مطالعہ کرنے کے بعد کہا یہ کتب ذو معنی ہیں۔ صحیح و غلط معنی مراد لیا جاسکتا ہے۔شیخ نے شریعتمداری کا شکریہ ادا کیا ۔ پھر ایک مناظرہ ہوا شیخ اور شریعتمداری کے درمیان ، شریعتمداری نے عبارتوں کے معانی پوچھے تو فیصلہ کیا یہ کافر ہے۔ پھر مرحوم جعفر پر دوبارہ قاتلانہ حملہ ہوا۔ مرحوم شہید ثالث کی جان کو خطرہ تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ دشمن نے شہید کی بہو (طاہرہ قرۃ العین جعلی نام) کو گمراہ کیا، اس نے پہلے شیخیت کو قبول کیا پھر بہائیت کو قبول کیا۔ پھر کہا کہ جو معارف محمد پر آئے تھے وہ لغو ہوچکے ہیں اب معارف باب کی طرف سے آرہے ہیں۔ اس نے چادر اتار دی۔ اس پر محمد علی باب شیرازی بانی فرقہ نے کہا میری یہ بیٹی طاہرہ قرۃ العین ہے، طاہرہ نے ایک جلسہ بلایا کہا جلسے بعد آپ چلے جائیں کچھ لوگوں کو روک لیا۔ اس نے کہا میں نے ان سے بہت بڑا کام لینا ہے۔ ۱۵ ذیقعدہ ۱۲۶۳ ہجری شہید مسجد میں آئے، رات کا وقت ہے، حالت مناجات میں تھے شیخیوں اور بہائیوں نے حملہ کیا۔۸ وار کئے۔ زبان کاٹ دی کہ بول نہ سکیں کیونکہ شہید کے بدن سے خون نکل رہا تھا آپ کہنیوں کے بل چل کر مسجد سے باہر آئے اور اس کے دو دن بعد آپ شہید ہوگئے۔
پاکستان میں شیخی لوگوں نے مرحوم کی توہین شروع کردی، عبارتیں تحریف شدہ، ترجمہ غلط اور توہین، کیونکہ یہ سب لوگ جانتے ہیں کہ بہائیت و شیخیت کی جس نے مخالفت کی ہے وہ تقی برغانی ہے۔
پروگرام کے دوسرے خطیب حجت الاسلام علامہ سید ظفر عباس نقوی نے آیت تطہیر پر روشنی ڈالتے ہوئےکہا کہ آیت کا پہلا لفظ انما حصر ہے۔ یہ مخصوص کرنے کیلئے ہے۔یہ لفظ دائرہ افراد کو تنگ کردیتا ہے۔انما کا تعلق یعنی حصر کا تعلق کس ک ساتھ ہے؟حصر ارادہ الٰہی کے ساتھ مربوط ہے؟ یا طہارت کے ساتھ مربوط ہے؟ یا حصر اہل البیت کا ہے کہ اہل بیت سے مراد خاص ہستیاں ہیں؟الفاظ قرآن کو قرآنی اصطلاح میں دیکھیں!جیسے صلاۃ کا لغوی معنی جدا، اصطلاحی معنی جدا، اہل بیت کا لغوی معنی جدا اصطلاحی معنی جدا، اہل البیت کا لفط قرآن میں تین مرتبہ استعمال ہوا ہے، یہاں اہل البیت نسبت شخص کے ساتھ مراد نہیں، بلکہ منسب سے مربوط ہے۔
در اصل اہل بیت نبوت مراد ہیں نہ اہل بیت نبی۔ آیت میں انما اور ضمائر کو جدا لاکر سیاق آیات کو توڑا ہے، اور قبل والوں کو خارج کردیا ہے اور اسی طرح پانچ کو چادر کساء میں جمع کر کے دوسروں کو باہر رکھ کر بتایا کہ اہل بیت اور ہیں ازدواج نبی اور ہیں۔