عربی منقبت نگاری میں حسان بن ثابت، امام شافعی، کمیت، حمیری جیسے عمدہ ترین شعرائے عرب اور فارسی ادبیات میں فردوسی، عطار، شمس تبریز، مولانا روم، سعدی، حافظ شیرازی اور جامی سمیت کئی نامور شعرا جبکہ اردو ادب میں ملا وجہی، قلی قطب شاہ، ولی دکنی، غواصی، نصرتی، انیس و دبیر، میر تقی میر، مرزا غالب، اقبال اور جوش ملیح آبادی جیسے عظیم شعرا ”مناقب امام علی“ بیان کرتے نظر آتے ہیں۔
مرزا غالب آسمان ادب کا خورشید انور ہیں۔ آپ کے بلند افکار، طبع آزمائی اور تخیلاتی و مشاہداتی پرواز سے ادب شناس خوب واقف ہیں۔ مرزا غالب جیسا عظیم شاعر بھی امام علی کے در پر اپنا سر جھکاتا نظر آتا ہے۔ کلام غالب میں امام علی کی مدحت سے لبریز منور واضح شعاعیں پھوٹتی نظر آتی ہیں۔ آپ کے بہت سے اشعار توصیف علی کے وظائف پر کار بند ہیں اور اس برکت سے پورا کلام مہک رہا ہے۔
”مناقب علی“ کو ہم مرزا غالب کے مکاتیب، فارسی اور اردو کلام میں دیکھ سکتے ہیں۔ مدحت علی ع کا زیادہ تر حصہ آپ کے فارسی اشعار سے معطر ہے اور نغمہ علی علی کی سدا سے نوائے سروش ہے۔ شان رسول کریم اور مدح اہل بیت آپ کے فارسی کلام کا خاصہ ہے۔ یادگار غالب میں حالی لکھتے ہیں کہ ”مرزا نوشہ نے تمام عبادات و فرائض میں سے صرف دو چیزیں لے لی تھیں، ایک توحید وجودی اور دوسرا نبی ع اور آل نبی ع کی محبت اور اسے وہ وسیلۂ نجات سمجھتے تھے۔“
امام علی مرزا غالب کی پسندیدہ ترین شخصیت ہیں اور اپنے کلام میں امام علی، حیدر، بو تراب، ساقی کوثر، حوض کوثر اور جانشین مصطفی جیسے اسماء سے یاد کرتے ہیں۔ یوں فارسی کلام مدحت علی ع میں خوشبوئیں بکھیرتا نظر آتا ہے۔
آپ کے کلام کا ایک مدحیہ حصہ پیش کیا جاتا ہے:
نقش لاحول لکھ اے خامۂ ہذیاں تحریر
یا علی عرض کر اے فطرت وسواس قریں
معنی لفظ کرم بسملۂ نسخۂ حسن
قبلۂ اہل نظر کعبۂ ارباب یقیں
جلوہ رفتار سر جادۂ شرع تسلیم
نقش پا جس کا ہے توحید کو معراج جبیں
کس سے ممکن ہے تری مدح بغیر از واجب
شعلۂ شمع مگر شمع پہ باندھے آئیں
ہو وہ سرمایۂ ایجاد جہاں گرم خرام
ہر کف خاک ہے واں گروۂ تصویر زمیں
مظہر فیض خدا جان و دل ختم رسل
قبلۂ آل نبی کعبۂ ایجاد یقیں
نسبت نام سے اس کے ہے یہ رتبہ کہ رہے
ابدا پشت فلک خم شدۂ ناز زمیں
جلوہ پرواز ہو نقش قدم اس کا جس جا
وہ کف خاک ہے ناموس دو عالم کی امیں
فیض خلق اس کا ہی شامل ہے کہ ہوتا ہے سدا
بوے گل سے نفس باد صبا عطر آگیں
برش تیغ کا اس کی ہے جہاں میں چرچا
قطع ہوجائے نہ سر رشتۂ ایجاد کہیں
کوہ کو بیم سے اس کے ہے جگر باختگی
نہ کرے نذر صدا ورنہ متاع تمکیں
کفر سوز اس کا وہ جلوہ ہے کہ جس سے ٹوٹے
رنگ عاشق کی طرح رونق بت خانۂ چیں
وصف دلدل ہے مرے مطلع ثانی کی بہار
جنت نقش قدم سے ہوں میں اس کی گلچیں
مطلع (ثانی
گرد رہ سرمہ کش دیدۂ ارباب یقیں
نقش ہر گام دو عالم صفہاں زیر نگیں
برگ گل کا ہو جو طوفان ہوا میں عالم
اس کے جولاں میں نظر آے ہے یوں دامن زیں
اس کی شوخی سے بہ حیرت کدہ نقش خیال
فکر کو حوصلۂ فرصت ادراک نہیں
جلوۂ برق سے ہوجائے نگہ عکس پذیر
اگر آئینہ بنے حیرت صورت گرچیں
جاں پناہا دل و جاں فیض رسانا شاہا
وصی ختم رسل تو ہے بفتواے یقیں
ذوق گلچینی نقش کف پا سے تیرے
عرش چاہے ہے کہ ہو در پہ ترے خاک نشیں
تجھ میں اور غیر میں نسبت ہے و لیکن بہ تضاد
وصی ختم رسل تو ہے باثبات یقیں
جسم اطہر کو ترے دوش پیمبر منبر
نام نامی کو ترے ناصیۂ عرش نگیں
تیری مدحت کے لیے ہیں دل و جاں کام و زباں
تیری تسلیم کو ہیں لوح و قلم دست و جبیں
آستاں پر ہے ترے جوہر آئینۂ سنگ
رقم بندگی حضرت جبریل امیں
تیرے در کے کیے اسباب نثار آمادہ
خاکیوں کو جو خدا نے دیے جان و دل و دیں
داد دیوانگی دل کہ ترا مدحت گر
ذرے سے باندھے ہے خرشید فلک پر آئیں
کس سے ہوسکتی ہے مداحی ممدوح خدا
کس سے ہوسکتی ہے آرایش فردوس بریں
جنس بازار معاصی اسد اللہ اسدؔ
کہ سوا تیرے کوئی اس کا خریدار نہیں
شوخی عرض مطالب میں ہے گستاخ طلب
ہے ترے حوصلۂ فضل پر از بس کہ یقیں
دے دعا کو مری وہ مرتبۂ حسن قبول
کہ اجابت کہے ہر حرف پہ سو بار آمیں
غم شبیر سے ہو سینہ یہاں تک لبریز
کہ رہیں خون جگر سے مری آنکھیں رنگیں
طبع کو الفت دلدل میں یہ سرگرمی شوق
کہ جہاں تک چلے اس سے قدم اور مجھ سے جبیں
دل الفت نسب و سینۂ توحید فضا
نگہ جلوہ پرست و نفس صدق گزیں
صرف اعدا اثر شعلہ و دود دوزخ
وقف احباب گل و سنبل فردوس بریں
مأخذ:
Deewan-e-Ghalib (Pg. 312)