۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
عرفان عابدی مانٹوی

حوزہ؍نام عرفانؔ ہے حق گوئی ہے شیوہ میرا۔قوم کے خوف سے تبلیغ نہیں چھوڑوں گا۔جن کے کردار سے آتی ہو یزیدی بدبو۔ایسے افراد کو میں زیرِ کفش رکھوں گا۔

حوزہ نیوز ایجنسی/

نتیجۂ فکر: حجۃ الاسلام عالی جناب مولانا عرفان عابدی مانٹوی، غازیپور

آج کے دور میں شبیر(ع) اگر ہوتے تو
پھر سے مجبور کیا جاتا انہیں ہجرت کو
اور پھر زاد سفر باندھ کے کہتے شبیر(ع)
کربلا جاتا ہوں اسلام تری نصرت کو

دیکھ کر حضرت شبّیر(ع) کی حق گوئی کو
تبصرہ دیر تلک سارے مسلماں کرتے
لوگ کہتے کہ حکومت سے نہیں لڑنا تھا
کیا بگڑ جاتا اگر شاہ ابھی ہاں کرتے

کوئی ایسا بھی تو ہوگا جو خبر سنتے ہی
توڑ کے بندشیں کوفے سے نکل کر آتا
دیکھ کر حضرت شبیر(ع) کا چہرہ نوری
اپنا ایماں کوئی عیسائی بدل کر آتا

راستے میں جو مسلمان کی بستي ملتی
لوگ منھ پھیر کے کاموں کی طرف چل پڑتے
ایک ہستی کو لیے لوگ جمع ہوجاتے
صرف نعروں کے لۓ ہاتھ کو اونچا رکھتے

زور سے کہتے مری جان فدا ہو مولا
اور باطل سے الجھ جانے کی ہمت ہی نہیں
دیکھ کر حضرت شبیر(ع) یہی فرماتے
ہم کو اس قسم کی اُلفت کی ضرورت ہی نہیں

آخرش کرب و بلا گھیر کے رکھا جاتا
اور تعداد بہتر سے نہ ہوتی زیادہ
سب کو معلوم بھی رہتا کہ ہے اصغر پیاسہ
کوئی ہمت بھی نہ کرتا کہ بڑھا دے پیالہ

خیر ھل من کی صدا ہر کوئی سنتا لیکن
کوئی آتا نہیں نصرت کو سوائے اصغر(ع)
کیسے نصرت کو پہونچ جائیں گے ایسے افراد
گھر سے مسجد نہیں آتے جو اذانیں سن کر

قتل شبیر جو ہوتے تو قیامت ہوتی
خون برساتا ہوا عرش نظر بھی آتا
اور محسوس بشر کرتا زمیں کے جھٹکے
اور سورج یہ سوا نیزہ اتر بھی آتا

اور اخبار میں کچھ ایسی خبر چھپ جاتی
چند باغی کا حکومت نے کیا کام تمام
ایک عہدے کے لیے خوب چلی تلواریں
قتل اسلام ہوا یا ہوئے شیعوں کے امام

اپنے اخبار میں جو بات صحیح لکھتے ہیں
وہ نہ لکھتے کہ مسلمان مسلمان لڑے
اُن کے اخبار کی سرخی میں یہ لکھا ہوتا
صاحبِ کفر سے پھر صاحبِ ایمان لڑے

بات سچی ہے مگر سب کو لگے گی کڑوی
آہ جانا تھا کہاں اور کہاں جاتے ہیں
اپنے ماں باپ کو دیتے ہیں اذیت تکلیف
کون سا منہ لیے مجلس میں چلے آتے ہیں

ایک حصہ کے لیے بھائی سے مدت لڑنا
اور عبّاس(ع) سے اُلفت کا بھرم رکھ لینا
چھین کے مال غریبوں کا امیری پانا
آپ کا پھر صف شبیر(ع) میں کاہے رہنا

شکر کرئے سنِ اکسٹھ میں نہیں تھے ہم لوگ
کیوں کہ کردار نہیں اپنا حسیني جیسا
کون کس صف میں نظر آتا نہیں ہے معلوم
جو ابھی جیسا ہے اس وقت بھی ہوتا ویسا

کوئی پیسہ کے لیے ظلم کی بیعت کرتا
کوئی مسند کے لیے قصر حکومت جاتا
کوئی رتبہ کے لیے شمر سے منت کرتا
کوئی شہرت کے لیے نام کی نصرت کرتا

کون ہو شمر زماں، پھیرتا خنجر اپنا
کئی تو خولی و بن سعد اُبھر کر آتے
آج جو مال خمس غصب کیے جاتے ہیں
لوٹ کے خیمہ وہی مال لیے گھر جاتے

یہ جو بے پردہ خواتین نظر آتی ہیں
ان کو زینب(ع) کی اسیری کا نہ صدمہ ہوتا
وہ جو شوہر سے کہے ماں سے محبت نہ کرو
ایسی خاتون کا پھر شمر سے رشتہ ہوتا

نام عرفانؔ ہے حق گوئی ہے شیوہ میرا
قوم کے خوف سے تبلیغ نہیں چھوڑوں گا
جن کے کردار سے آتی ہو یزیدی بدبو
ایسے افراد کو میں زیرِ کفش رکھوں گا

تبصرہ ارسال

You are replying to: .