پیامؔ اعظمی
ایک خاندان جہاں شب و روز انیس و دبیر کو سنا جاتا تھا وہیں 15 ستمبر 1935 میں ایک انمول ہیرے نے جنم لیا ۔ اصل نام سید قنبر حسین اور شعری دنیا میں پیام اعظمی کے نام سے جانے جاتے ہیں. نباض ادب ، شاعر تنظیم جناب ڈاکٹر پیام اعظمی صاحب کے اشعار الفاظ کی بازیگری نہیں بلکہ بیدارئ افکار کے لافانی نقوش ہوتے ہیں۔ عرصہ ہوا کہ ملک کی سرحدیں پار کرکے عالمی مقبولیت حاصل کرتے چلے آئے ہیں۔
میرا اسکول نہ دلی نہ اودھ ہے نہ دکن
ہے در علم پیمبرﷺ سے مرا رشتہ فن
لیتا ہوں سیرت معصوم سے اصلاح سخن
سامنے رہتی ہیں کردار کی شمعیں روشن
سانس رکتی ہے تخیل کی ، نہ لے ٹوٹتی ہے
میرے لکھے ہوئے شعروں سے کرن پھوٹتی ہے
محفلوں اور مجلسوں میں ان کا کلام کئی جگہ پڑھا جاتا ہے . متعدد انجمنیں ان کے لکھے ہوئے مسدس، سلام اور نوحے پڑھتی ہیں. والدہ کا انتقال پیام صاحب
کی کم سنی میں ہی ہوگیا تو والد گرامی سید مرتضیٰ حسین نے تنہا پرورش کی ذمہ داری سنبھالی جو کہانیوں کے بجاے اپنے بیٹے کو خیبرو خندق و کربلا کے واقعات اور اساتذہ کے اشعار سنایا کرتے تھے۔
گہوارہ اپنا ذکر شہنشاہ مشرقین
یعنی یہی پلے بڑھے ہیں ہم ارباب شور شین
ملتا ہے اپنے دل کو اسی انجمن میں چین
مومن کا اصل گھر ہے یہی مجلس حسینؑ
نہ تاج اور نہ مسند شاہانہ چاہیے
ہم اہل دل ہیں ہم کو عزاخانہ چاہیے
طاقت پر کیوں اتراتے ہیں دینِ الہی کے دشمن
بیٹھا ہوا ہے پردے میں تلوار لیۓ اک قلعہ شکن
سلسلۂ عصمت کا خلاصہ ، سینۂ گیتی کی دھڑکن
آرزوۓ زہراؑ و پیمّبر(ص) جان حسینؑ و روح حسنؑ
بدر و احد سے بھاگنے والو آخری حملہ باقی ہے
چودہ صدیاں بیت گئیں شبیرؑ کا چرچا باقی ہے
لاکھ مٹاو مٹ نہ سکے گا آل نبیؐ کا نام و نشاں
لاوارث سمجھو نہ اسے خالق اکبر کا ہے مکاں
بیت سے اہلبیت کا رشتہ کیا توڑیں گے اہل جہاں
کیا جانے کب بام حرم پر گونج اٹھے آواز اذاں
اے کعبہ کے ٹھیکیدارو کعبے والا باقی ہے
چودہ صدیاں بیت گئیں شبیرؑ کا چرچا باقی ہے
پیام اعظمی اپنے کلام سے ضمیروں کو جھنجھوڑ دیتے ہیں
ذکر مولا ہے یہ آپس میں عداوت کیسی
غم شبیرؑ ہے ، سینے میں کدورت کیسی
بھائی بھائی سے ہے ناخوش، یہ حماقت کیسی
ماتم شاہ میں ، اغیار کی سیرت کیسی
عشق و الفت کی جگہ بغض کا معیار نہیں
ماتم شہؑ ہے ، تماشہ سر بازار نہیں
بقول پیام صاحب کے "قرآن نے بامقصد شاعری کو گمراہ کن شاعری سے واضح طور پر الگ کر دیا ہے قابل مدح اور قابلِ ستائش شاعری کے لیے چار صنعتیں بیان کردی
ہیں یعنی ایمان ، عملِ صالح ، ذکرِ خدا ، ظلم سے مقابلہ. اگر کسی شاعری کی بنیاد ان چار صفتوں پر ہے تو وہ اسلامی شاعری ہے ورنہ نہیں۔ انقلاب ایران برپا ہوا تو پیام اعظمی بول اٹھے
سلام قوم کے احساس حق پسندی کو
سلام گردش طوفاں میں تختہ بندی کو
سلام عزم خمینی کی فتح مندی کو
سلام پرچم ایران کی سر بلندی کو
سکوت قوم کا جھنکار بن گیا آخر
لہو غریبوں کا تلوار بن گیا آخر
سمجھ رہا تھا زمانہ یہ قوم گریہ کناں
رہین شیوہ و ماتم اسیر وہم و گماں
نہ تیغ اٹھے گی اس سے نہ چل سکے کی سناں
بھلا یہ قوم کہاں اور انقلاب کہاں
مگر اٹھی تو ستم کا زجاج پھینک دیا
اتار کر سر ظالم سے تاج پھینک دیا
سر آسمانوں کا خم کردیا زمینوں نے
گہر بنا لیا مزدور کے پسینوں نے
خراج لے لیا طوفان سے سفینوں نے
پہاڑ توڑ دیے اٹھ کے آبگینوں نے
جنازہ کفر کا نکلا ہے آستانوں سے
اذاں بلند ہوئی ہے شراب خانوں سے
اپنے کلام "آنسو" میں بہترین انداز میں اشکوں کی تعریف کی ہے
انہیں اشکوں سے تو اقوام و امم زندہ ہیں
ہے ادب زندہ و سرنامۂ غم زندہ ہیں
سوز جب تک ہے زبانوں میں قلم زندہ ہیں
طفل نو رو کے بتاتا ہے کہ ہم زندہ ہیں
سانس لینے نہیں پاتے کہ گزر جاتے ہیں
جن کو رونا نہیں آتا ہے وہ مر جاتے ہیں
کون کہتا ہے کہ رونا ہے شکست ہمت
دلِ بزدل کو نہیں دیدۂ تر سے نسبت
اشک بہتے ہیں تو بڑھ جاتی ہے دل کی طاقت
گریۂ غم نے مجاہد کو عطا کی قوّت
شب کو محراب میں روتے تھے جو شبنم کی طرح
دن کو میداں میں نکلے وہی ضیغم کی طرح
اپنے ایک مرثیے داستان وفا میں محسن اسلام حضرت
ابو طالبؑ کا ذکر کرتے ہیں
تو نہ ہوتا تو کہیں ٹھوکریں کھاتا اسلام
کس کے دامن میں جگہ ملتی جو آتا اسلام
کس کے گھر اپنی پناہ گاہ بناتا اسلام
سر چھپانے کا ٹھکانہ بھی نہ پاتا اسلام
کار تبلیغ کی بنیاد تھی نصرت تیری
تھی خدا اور پیمبر(ص) کو ضرورت تیری
یہ مرثیہ حضرت عباسؑ کے حال میں ہے
جو بھی ہو سکتا ہے نصرت کا وہ عنوان تھا وہ
ہر طرح آلِ پیمبرۖ کا نگہبان تھا وہ
کبھی سقہ کبھی خادم کبھی دربان تھا وہ
معجزہ تھا شہِ بیکس کا ، کہ انسان تھا وہ
رات کو خیمہ سرور کا نگہدار بنا
صبح کو فوجِ حسینی کا علمدار بنا
گرد خیموں کے طواف اٹھ کے لگاتا تھا کبھی
باہر آتا تھا کبھی خیمہ میں جاتا تھا کبھی
گود میں لے کے بھتیجی کو کھلاتا تھا کبھی
جھولا بے شیر کا جا جا کے جھلاتا تھا کبھی
آتا گھبرا کے کبھی سید مظلوم کے پاس
بیٹھ جاتا تھا کبھی زینبؑ و کلثومؑ کے پاس
پیاسے بچوں کا خیال اور بھی تڑپاتا تھا
دیکھتا تھا سوے افواج تو بل کھاتا تھا
ضبط کرتا تھا مگر جسم لرز جاتا تھا
یا علیؑ کہتا تھا جب خون میں جوش آتا تھا
صبر کی تیغ سے خود رشتہ جان کٹ جاتا
دوسرا کوئی جو ہوتا تو جگر پھٹ جاتا
اپنے ایک مسدس میں ٦٠ ہجری کے اسلام اور مسلمانوں کی حالت بیان کرتے ہیں
اے ہمنشیں فسانۂ دین خدا نہ پوچھ
اسلام پہ جو وقت مصیبت پڑا نہ پوچھ
کس طرح کاروان صداقت لٹا نہ پوچھ
بعد رسول(ص) دہر میں کیا کچھ ہوا نہ پوچھ
کہتی ہے شام غم یہ سحر کے چراغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
تاریخ نے وہ موڑ لیا تھا کہ الحذر
ظالم یزید اور خلافت کے تخت پر
آزر کے بندوبست میں تھا کبریا کا گھر
رہزن کو حادثوں نے بنایا تھا راہبر
ابلیس ورثہ دار خلیلؑ و کلیمؑ تھا
شداد اور نائب خلق عظیم تھا
اخلاق بے وطن تھا وفا بے دیار تھی
سجدے تھے مضطرب تو نماز اشکبار تھی
کعبہ اداس قبر نبیؐ سوگوار تھی
ہلتا تھا آسمان زمیں بے قرار تھی
آتی تھی ہر طرف سے صدا شور و شین کی
اسلام دے رہا تھا دہائی حسینؑ کی
جس جھوٹ پر بنے تھے حکومت کے بام و در
سازش جو کی گئی تھی خلافت کے نام پر
اسلام جس فریب کو کہتے تھے اہل شر
بیکار کردیا اسے پیاسوں نے دے کے سر
ہر داغ مٹ کے رہ گیا باطل کے زنگ کا
لمحوں نے فیصلہ کیا صدیوں کی جنگ کا
بہترین قطعات کہے ہیں۔ مثلا
پرچم عظمت اسلام اٹھایا نہ گیا
راستہ خلقِ پیمبر(ص) کا دکھایا نہ گیا
تم مسلمانوں کو کافر تو بنا سکتے ہو
کسی کافر کو مسلماں بنایا نہ گیا
ہم پہ الزام ہے غیروں سے وفاداری ہے
دوستوں کی یہ عجب طرز جفا کاری ہے
وہ اگر خون بہا دیں تو انھیں کچھ نہ کہو
ہم جو دو اشک بہا دیں تو دل آزاری ہے
حسنینؑ نصف نصف بدن ، دل ہیں فاطمہؑ
اور شیر کبریا کے سوا سر کہیں کسے
اجزاے مصطفیٰ(ص) ہیں پیام آل محمد(ع)
عترت کو چھوڑ دیں تو پیمبر(ص) کہیں کسے
سوچا تھا لعینوں نے تقدیر بدل دیں گے
قرآن نہ بدلیں گے تفسیر بدل دیں گے
لیکن نہ سمجھے تھے کٹوا کے گلا اپنا
تاریخ کا رخ ایک دن شبیرؑ بدل دیں گے
عشق حیدرؑ ہے تو قرآں کی دلآزاری نہ کر
بے عمل رہ کر محبت کی اداکاری نہ کر
اے مسلماں تجھ سے کہتا ہے یہ پیغام غدیر
تو غدیری ہے تو مقصد سے غداری نہ کر
کس قدر مظلوم ہیں ہم مدحِ خوانِ اہلبیت
سب نے الزام دل آزاری ہمیں پر دھر دیا
اس قدر حس بڑھ گئی ہے ان دنوں احباب کی
چھینک بھی آئے تو سمجھیں گے تبرا کر دیا
اپنے معرکۃ الآرا مسدس "آخری انقلاب" میں کہتے ہیں ایک وہ دن بھی آۓ گا جب ذوالفقار امام زمانہ سے مخاطب ہوگی
کہے گی تیغ کہ ہو آج فیصلہ میرا
تڑپنا میان میں اب تک تھا مشغلہ میرا
نکل سکا نہ کبھی رن میں حوصلہ میرا
زمانہ دیکھتا خیبر میں ولولہ میرا
نمود قوت نان جویں نے روک لیا
وہاں بھی شہپر روح الامیں نے روک لیا
علیؑ چڑھا کے مجھے رن پہ روک لیتے تھے
سکون و صبر کے دامن پہ روک لیتے تھے
کبھی زرہ کبھی توسَن پہ روک لیتے تھے
جد آپکے سر دشمن پہ روک لیتے تھے
علیؑ کے بعد بھی ضبط و الم سے کام لیا
حسنؑ نے روک کے مجھ کو قلم سے کام لیا
نبیﷺ کے لال نے زہرا کے چین نے روکا
در خیام سے زینبؑ کے بین نے روکا
دم جہاد شہ مشرقین نے روکا
بوقت عصر یہ کہہ کے حسینؑ نے روکا
زمین کوفہ و دربار شام لے لینا
دم ظہور مرا انتقام لے لینا
ہوئی بلند تو خیبر شکن نے روک لیا
علیؑ کے بعد اٹھی تو حسنؑ نے روک لیا
بلا کے دشت میں تشنہ دہن نے روک لیا
دیار شام میں اک بے وطن نے روک لیا
نہاں تھی قوت خیبر شکن کلائی میں
مگر وہاں بھی بندھی تھی رسن کلائی میں
جلال فاتح خیبر کا واسطہ تجھ کو
فغان بنت پیمبر(ص) کا واسطہ تجھ کو
تبسم علی اصغرؑ کا واسطہ تجھ کو
ردائے زینبؑ مضطر کا واسطہ تجھ کو
بہت دنوں پہ پڑا ہے یہ رن نہ روک مجھے
کئی صدی کی ہوں تشنہ دہن نہ روک مجھے
بھری ہے آگ مرے دل میں بے قرار ہوں میں
نہ جانے کتنے شہیدوں کی سوگوار ہوں میں
نہ جانے کتنے یتیموں کی قرض دار ہوں میں
کہے گا کون کہ حیدرؑ کی ذوالفقار ہوں میں
علیؑ کے لال ترے نام کی دہائی ہے
نہ آج روک مجھے آخری لڑائی ہے
پیام صاحب اپنی ولائی و مولائی زندگی کی خوبصورت منزلیں طے کررہے ہیں الله عز وجل انہیں صحت و تندرستی عطا فرمائے